’’داعش‘‘ کے ذمہ داری قبول کرنے پر تمام مسلم اور عالمی قیادتیں اس سے نجات کیلئے سرجوڑ کر بیٹھیں

Nov 15, 2015

اداریہ

پیرس کے چھ مقامات پر دہشتگردوں کے حملے میں 180 افراد کی ہلاکتوں اور 200 سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق‘ فرانس میں قومی سوگ


فرانسیسی دارالحکومت میں چھ مختلف مقامات پر کئے گئے دہشت گرد حملوں میں گزشتہ روز 180 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔ ان حملوں کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ سرحد کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ حملوں میں چھ مقامات پر 160 افراد موقع پر ہی ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ غیرملکی ایجنسی کے مطابق فرانس کے بٹاکلان تھیئٹر میں 100 افراد ہلاک جبکہ 11 زخمی ہوئے‘ ایک دوسرے مقام پر ری چاہن میں 19 افراد ہلاک اور 23 افراد شدید زخمی ہوئے۔ فرانس کے ری بیشا نامی مقام پر 14 افراد ہلاک جبکہ 20 شدید زخمی ہوئے۔ اسی طرح ایونیودالا ریپبلک میں ہونیوالے حملے میں 4 افراد ہلاک جبکہ 21 شدید زخمی ہوئے۔ سٹڈدا فرانس میں ہونیوالے دہشت گرد حملے میں 4 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔ فرانس کے فٹبال سٹیڈیم کے دوران ہونیوالے دو دھماکوں کے بعد شائقین اور کھلاڑیوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ دہشت گردوں نے یرغمال بنائے گئے 118 افراد کو کنسرٹ ہال میں اس وقت ہلاک کیا جب فرانس کے کمانڈوز نے انہیں بازیاب کرانے کیلئے کمانڈو ایکشن کیا۔ دہشت گردوں میں سے 3 حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔ پیرس حملوں میں ایک مقام ری بوما کچے بھی تھا جس میں دہشت گردوں کی جانب سے کئے گئے حملے میں 7 افراد زخمی ہوئے۔ حملوں میں زخمی ہونیوالے افراد کو پیرس کے مختلف ہسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ بعض زخمی افراد نے تشویشناک حالت میں ہسپتالوں میں بھی دم توڑا۔ فرانس میں سرحد کو سیل کر دیا گیا ہے تاہم ریلوے اور فضائی سروس جاری ہے۔ رات گئے ہونیوالے حملوں کی ذمہ داری جنگجو تنظیم داعش نے قبول کرلی ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق داعش نے اعلان کیا ہے کہ مستقبل میں روم‘ لندن اور واشنگٹن میں حملے کئے جائینگے۔ داعش نے مارچ میں یورپ کے متعدد شہروں کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔
فرانس میں سفاکانہ دہشت گردی اور خودکش حملوں کے واقعات بلاشبہ انسانیت کیخلاف قبیح جرم کے زمرے میں آتے ہیں اس لئے عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ عالم اسلام کی قیادتوں کی جانب سے بھی ان حملوں کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور سعودی وزیر خارجہ نے جہاں ان حملوں کی مذمت کی ہے وہیں پیرس میں موجود سعودی سفارتخانہ میں تعزیتی کلمات لکھنے کیلئے کتاب بھی رکھ دی گئی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے بھی ان دہشت گردانہ حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم اس دہشت گردی کیخلاف احتجاج کی آواز بلند کرتے ہیں جبکہ دفتر خارجہ پاکستان کے جاری کردہ بیان میں حکومت پاکستان اور عوام کی طرف سے فرانس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ جب پیرس میں گستاخانہ خاکے شائع کرنیوالے رسالے چارلی ایبڈو کے دفتر پر شدت پسندوں نے حملہ کرکے اس رسالے کے ایڈیٹر سمیت 17 افراد کو ہلاک کیا اس وقت بھی اسلامی دنیا کی قیادتوں نے اس دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی اور فرانسیسی عوام سے یکجہتی کیلئے 40 ممالک کے سربراہان کے یونٹی مارچ میں مسلم دنیا کے نمائندے بھی شریک ہوئے تھے جبکہ مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آل شیخ گزشتہ ماہ مسجد نمرہ میں اپنے خطبۂ حج میں داعش اور اسلامی ریاستوں پر حملہ کرنیوالے دوسرے دہشت گردوں کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ بھی صادر کر چکے ہیں۔ اس تناظر میں فرانس کی سفاکانہ دہشت گردی کیخلاف پوری مسلم امہ فرانسیسی عوام کے غم میں برابر کی شریک ہے اور اس وقت اصل ضرورت اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے والی تنظیم داعش اور اسکے سرپرستوں و سہولت کاروں کے قلع قمع کی ہے جس کیلئے کسی تعصب میں پڑے بغیر اور کوئی امتیازی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے تمام عالمی قیادتوں کو یکجہت اور یکسو ہو کر اپنے اپنے ملک اور خطے میں دہشت گرد تنظیم داعش کو جڑسے اکھاڑنے اور اسکے مکمل قلع قمع کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کے اس جنونی فعل کا ناطہ دین اسلام اور مسلم ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ بلاتحقیق و ثبوت نہیں جوڑنا چاہیے۔
اس وقت جبکہ ہندو جنونیت کی انتہاء کو پہنچے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یورپ کے دورے پر ہیں اور بھارت میں ہندو انتہاء پسندوں کی مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ بربریت اور دہشت گردی کے ردعمل میں انہیں لندن‘ برسلز اور برلن میں اپنے خلاف سخت احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ عین انہی لمحات میں دہشت گردوں کا فرانس میں اچانک سرگرم عمل ہو کر دہشت گردانہ حملے کرنے کا مودی سرکار کی ہندو انتہاء پسندی کیخلاف مغربی ممالک میں مودی کی آمد پر ہونیوالے احتجاجی مظاہروں سے دنیا کی توجہ ہٹانا بھی مقصد ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں دہشت گرد گروپوں کو بھارتی ’’را‘‘ کی سرپرستی اور معاونت حاصل ہونے کے ثبوت بھی موجود ہیں جو اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو فراہم کئے جاچکے ہیں جبکہ ان دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے پاکستان میں داعش کی موجودگی کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ اگر یہ دہشت گرد تنظیم پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارتی ’’را‘‘ کی آلۂ کار بن سکتی ہے تو دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس تنظیم کے بھارتی مقاصد کیلئے استعمال ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
دولت اسلامیہ داعش کے نام سے اس جنگجو جہادی تنظیم کا قیام عراق سے امریکی نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد عمل میں آیا تھا جس کے قیام میں امریکی مفادات کے عمل دخل کی باتیں بھی زیرگردش رہیں تاہم جس طرح امریکی سرپرستی میں فروغ پانے والے افغان مجاہدین نے القاعدہ اور طالبان کا روپ دھار کر خود امریکہ اور خطے کی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کئے اسی طرح اب داعش بھی شتر بے مہار ہو کر علاقائی اور عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ اور انسانیت کی تباہی کا اہتمام کرتی نظر آتی ہے۔ اس تنظیم کی عراق کے علاوہ شام‘ مصر‘ لیبیا‘ یمن‘ تیونس اور دوسری خلیجی ریاستوں میں بھی جڑیں پھیل چکی ہیں جبکہ نیٹو کمانڈر جنرل جون ایف کیمیل کچھ عرصہ قبل اس امر کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ داعش افغانستان اور پاکستان میں جنگجو بھرتی کررہی ہے۔ اسی طرح ایرانی زمینی افواج کے کمانڈر جنرل احمد رضا پورستان نے بھی ایرانی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے داعش کے ہمسایہ ممالک میں اثرورسوخ بڑھنے کا عندیہ دیا تھا۔ اب فرانسیسی صدر نے فرانس میں تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے پیرس کے دہشت گردانہ حملوں میں ’’داعش‘‘ کے ملوث ہونے کی تصدیق کردی ہے تو اس دہشت گردی کا داعش کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے مقاصد کے حوالے سے ہی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اگر اس دہشت گرد تنظیم نے پاکستان‘ افغانستان اور ایران میں دہشت گردی کی بعض وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد سعودی عرب کے بعض شہروں کی مساجد میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا اور پھر داعش کے ایک جنگجو نے اپنے ویڈیو پیغام میں امریکی صدر باراک اوباما کا سر قلم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے امریکہ‘ فرانس‘ بیلجیئم‘ کردستان اور یورپی ممالک میں حملے کرنے کی بھی دھمکی دی تھی تو اس تنظیم کی تشکیل کے پس پردہ مقاصد کا کھوج لگانا ضروری ہے تاکہ اس تنظیم کو جڑ سے اکھاڑنے کی مربوط حکمت عملی طے کرنے میں آسانی ہوسکے۔ پاکستان میں اس دہشت گرد تنظیم کی موجودگی کے شواہد ملنا یقیناً ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے اور انہیں دہشت گردی کی جنگ میں اس تنظیم کے قلع قمع کی بھی جامع حکمت عملی طے کرنا ہوگی جس کیلئے تمام دہشت گرد اور انتہاء پسند تنظیموں کے معاملات کی کڑی نگرانی ضروری ہے تاکہ اس امر کی تصدیق ہو سکے کہ داعش کو پاکستان کے اندر سے کسی قسم کی عسکری کمک مل رہی ہے یا نہیں۔ تاہم فرانس کی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی جانب انگلی اٹھانے سے پہلے بیرونی ممالک کی قیادتوں اور مبصرین کو یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے جس کے عوام اور سکیورٹی فورسز کے جوان اور افسران دہشت گردی کی جنگ میں آج بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اس لئے داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع پاکستان کی بقاء و سلامتی کیلئے بھی ضروری ہو چکا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے اندر سے داعش یا دوسری دہشتگرد تنظیموں کو کمک پہنچنا پاکستان کی سالمیت کے بھی دائو پر لگنے کے مترادف ہوگا۔ اسی تناظر میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام پیرس کی دہشت گردی پر فرانسیسی عوام کے ساتھ یکجہت بھی ہیں اور انکے غم میں برابر کے شریک بھی ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور پر مسلم اور امہ کی عالمی قیادتوں نے باہم مل کر قابو پانا ہے جو دہشت گردی کے محرکات اور دہشت گرد تنظیموں کے قیام کے مقاصد کا کھوج لگائے بغیر ممکن نہیں۔

مزیدخبریں