پاکستان کے ایٹمی پرگرام کی اس قدر مخالفت پوری دنیا میںنہیںہوتی جس قدر پاکستان میں ہوتی ہے اور یہ مخالفت شوقیہ ہے، فیشنی ہے مگر اس کے لئے فدیہ اور ہدیہ پورا ملتا ہے۔یہ ہدیہ وہ طاقتیں عطا کرتی ہیںجوپاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں، محکوم دیکھنا چاہتی ہیں۔ بھارت کا ٹٹو بنانا چاہتی ہیں۔پاکستانیوں کو اقوام عالم کا دلت بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔
نواز شریف صدر اوبامہ سے ملنے چلے تو کھلی باتیں ہوئیں کہ وہ ایٹمی اسلحے کو لپیٹنے کے معاہدے پر دستخط کر کے لوٹیں گے۔ اس دورے میں خیریت گذری، ان کے ساتھ کسی نے اس مسئلے کا ذکر ہی نہ چھیڑا۔اور اگر چھیڑا ہو گا تو سامنے نہیں آیا۔
اب آرمی چیف نے امریکہ کے لئے رخت سفر باندھا ہے تو پھر وہی چہ میگوئیاں اور اس شخص کو کمزور کرنے کے لئے پوری قوم ان پر پل پڑی، بے نقط سنائی گئیں، صرف اس بات پر کہ ان کے کور کمانڈروںنے اتفاق رائے سے کہا کہ ضرب عضب کے بہتر نتائج کے لئے ضروری ہے کہ سول سائیڈ پر بھی اسی جذبے سے کام کیا جائے۔ میںنہیںجانتا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کا ترجمہ کرتے ہوئے یاا س کی سرخیاں جماتے ہوئے یہ بات کہاں سے کشید کی گئی کہ گڈ گورننس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔میڈیا کی اس مہارت کی میں دادیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دن کی روشنی میں بات کو غتر بود کیا گیا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی بھی شخص مجھے پریس ریلیز میں بہتر گورننس کے مطالبے کے الفاظ دکھا دے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ الفاظ نہیں تھے تو فوج نے فوری طور پر گرفت یا وضاحت کیوںنہیں کی، میرا خیال ہے کہ فوج اس لئے خاموش رہی کہ جس کسی کے ذہن میںجو کچھ ہے ، وہ ابل کر باہر آ جائے۔
میں اس بحث کو یہیں چھوڑتا ہوں، تھوڑے لکھے کو بہتا جانیں۔عاقل را اشارہ بس است!
امریکہ روانگی سے ایک روز قبل آرمی چیف نے پاکستان سنٹرفار نیوکلیر سیکورٹی کا دورہ کیا ۔اس دورے کی خبریں اسی ٹھاٹھ باٹھ سے شائع ہوئی ہیں جیسے آرمی چیف کی خبریں پہلے نمایاں کی جاتی تھیں، خدشہ یہ تھا کہ ایک نام نہادعوامی سروے کے بعد آرمی چیف کی خبریں کون شائع کرنے کا تکلف کرے گا، اوپر سے پریس ریلیز کی آڑ میں آرمی چیف پر وہ بوچھاڑ کی گئی کہ ان کی آیندہ کی سات نسلیںبھی کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو ں گی۔ اور ایک بار بولنے سے پہلے سو بار سوچیں گی۔
مگر خاطر جمع رکھئے آرمی چیف اس مٹی سے نہیں بنے جو ذرا سے بوجھ سے بیٹھ جاتی ہے۔میںبار بار یاد دلاتا ہوں کہ ان کاخمیر ایک نشان حیدر بھائی کے خون سے گوندھا گیا ہے۔وہ شخص جو گردنوں سے فٹ بال کھیلنے والوں سے نہیں ڈرا ، وہ ٹر ٹر کرنے والوں سے کیا سہمے گا۔زرداری صاحب نے احسان کیا ہے کہ سو صلواتیں سنانے کے بعداپنی پارٹی کو پریس ریلیز کے مسئلے پر خاموش رہنے کی ہدائت کی ہے۔ہم پہ احساںجو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا۔
آرمی چیف کی صحت پر اس غوغا آرائی کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ اپنی ڈیوٹی میںمگن دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے اپنے میزبانوں پر واضح کر دیا ہے کہ تم جو سوال پوچھنا چاہتے ہو،ان سب کا جواب حاضر ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی محفوظ ہے اور اس کے صدقے پاکستان بھی محفوظ ہے، نہ اس پروگرام کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھے ، نہ پاکستان کی طرف۔
جس ملک نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی پروگرام کو حتمی شکل دی، وہ اب دنیا سے کیا خوف کھائے گا، اب خوف کھانا ہے تودنیا اس سے خوف کھائے۔پاکستان نے بہت سزا بھگت لی، بھٹو سے کہا گیا کہ تمہیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا،اورا س دھمکی پر من و عن عمل کیا گیا، ضیاا لحق کو دھمکی دی گئی کہ تم نے سرخ بتی عبور کر لی، اب اپنی فکر کر لو مگر اسے اپنی نہیں،ملک کی فکر تھی اور وہ ملک کی سلامتی کو یقینی بنا چکا تھا، محترمہ بے نظیر کو ہاتھ روکنے کی ہدایت کی گئی مگر انہوںنے ڈیلیوری پروگرام کے حصول کی جدو جہد کو تکمیل تک پہنچا کر دم لیا ، یہ الگ بات ہے کہ انہیں ٹک کر حکومت نہیں کرنے دی گئی اور پھر قومی مفاہمت کے معاہدے کا لالچ دے کرانہیں وطن واپسی پر دہشت گردوں نے نشانے پر رکھ لیا۔ نواز شریف سے کہا گیا کہ ایٹمی دھماکے سے اجتناب کرو، اس نے سنی ان سنی کر دی اورا سے تاریک قلعوں اور جلا وطنی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔ ان گرانقدر قربانیوں کے بعد کون اس ایٹمی پروگرام کو قربان کرنے کی ہمت رکھتا ہے، اورکس میں ہمت ہے کہ اس پرگرام سے چھیڑ چھاڑ بھی کر سکے۔جو غلطی کرے گا،وہ بھگتے کا بھی !
پاکستان کبھی غیر ذمے دار ملک تھا، نہ ہو گا، تاریخ انسانی میں ایٹمی غیر ذمے داری کا مظاہرہ صرف امریکہ نے کیا۔ وہ دوسروںکو کس برتے پر آنکھیں دکھاتا ہے، اس کو آئینہ دکھانے والا کوئی ہو تو اس کی زبان بند ہو۔
آرمی چیف امریکہ جائیں گے ، ان کے آمنے سامنے کوئی بیٹھے گا تو وہ قوم کی زبان میں گفتگو کریں گے، توقع تو یہی ہے، ویسے دورہ ہو لینے دیں، سب کچھ سامنے آجائے گا۔
امریکہ کو اگر کسی کے ایٹمی پرگرام کی فکر ہونی چایئے تو اول اسرائیل پر نظر رکھے جس کے مقابل عرب ممالک باکل نہتے ہیں۔بھارت کو امریکہ نے لاڈلا بنا رکھا ہے حالانکہ جو جرم پاکستان سے سرزد ہوا، وہ بھارت نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر کیا مگر ا س سے کوئی تعرض نہیں کرتا،ا سکے ساتھ تو سول ایٹمی معاہدہ بھی کر لیا گیا ۔پاکستان جو بجلی کی کمی سے اندھیروںمیں بھٹک رہا ہے، اس پر سوسو پابندیاں عائد ہیں۔
امریکہ کو ایک فکر دہشت گردی کی ہے۔ہمارے عبقری دانش ور پاک فوج کوا لزام دیتے ہیں کہ اس نے افغان جہاد میں دہشت گردوں کو شیر بننے کا موقع فراہم کیا مگر سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ افغان جہاد کا حقیقی سرپرست کون تھا، ڈالر کون فراہم کرتا تھا، اسٹنگر کہاں سے آتے تھے اور دنیا بھر سے جہادیوں کی فلائیٹں پشاور کون اتارتا تھا۔جس نے اس جن کو پیدا کیا ، وہ اس جن کے نشانے پر ہے، مگر امریکہ نے پاک فوج پر دبائوڈال رکھا ہے کہ وہ اس جن کو بوتل میں بند رکھے، پاک فوج اس جنگ میں اپنے پانچ ہزار افسروں اور جوانوں کی قربانی دے چکی ہے، ہزاروںمفلوج ہیں۔ڈیڑھ سو بچے تو پشاور میں شہید کر دیئے گئے۔ امریکہ ا ور کیا قربانی مانگتا ہے۔ہم تو اگلی نسل سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ ہمارا مستقبل ہم سے چھین لیا گیا۔اب تو ہم تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت میں ہیں۔امریکہ احتیاط سے ہمارے آرمی چیف سے بات کرے۔