پیشتر اس کے کہ میں اپنے موضوع کے مطابق احتجاجی سیاست پہ بات کروں میں ایک خط کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو کسی صاحبِ ذوق نے مجھے ایک کالم کی صورت میں بھیجا ہے۔ جس میں نظریہ پاکستان کی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے مجھے نظریہ پاکستان کے بارے تفصیل سے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہم سالہا سال جنت مکانی ڈاکٹر مجید نظامی اور نہایت محترم ڈاکٹر رفیق صاحب کی شاگردی میں رہے ہیں۔ ہم کو سب معلوم ہے یہ نظریہ کہاں سے آیا اور موجد کون تھا، ہم اس مہربان کو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اختلاف کرنے کی بجائے وہ محض تمام پاکستان کی اسمبلیوں کے اندر سے وہ حلف نامہ منگا کر دیکھ لیں۔ جس کی عبارت پڑھ کے منتخب ارکانِ صوبائی، قومی اسمبلی و سینٹ کے علاوہ وزرائ، وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم حلف لیتے ہیں۔ بلکہ ہر شعبہ کے اعلیٰ عہدیدار اس عبارت کے مطابق حلف لیتے ہیں۔ اس کے بعد نظریہ پاکستان کی کہیں سے وضاحت لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کچھ ستم ظریف ایک عرصہ تک دو قومی نظریہ کی نفی کرتے رہے اور ’’آنے بہانے‘‘ ہم فقیروں سے الجھتے رہے۔ اللہ کا صد شکر کہ حال ہی میں نریندر مودی نے خوبصورتی کے ساتھ اس کی وضاحت کر دی ہے۔ قائداعظم کی تقاریر کے دو جملے لکھ کر اس بحث کو ختم کرتی ہوں۔ ایک تقریر میں انہوں نے فرمایا ’’پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مسلم مملکت ہو گی۔ یہ پاپائی ریاست نہیں ہو گی۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا ’’پاک سرزمین کی اصل منزل اسلامی جمہوریت، اسلامی معاشرتی انصاف اور انسانی مساوات ہو گی۔‘‘
ہم آپ کو 1985ء کے دور میں لئے چلتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جناب میاں نواز شریف کم و بیش بلاول کی عمر سے کچھ بڑے ہوں گے اور ان کی سیاست کی ابتدا ہو رہی تھی۔ دوسری طرف مرکز میں 1988ء کو محترمہ بینظیر صاحبہ کی حکومت بن چکی تھی۔ وہ بھی نوعمر نوآموز تھیں۔ مرکز اور پنجاب میں ایک ’’اٹ کھڑکا‘‘ شروع ہو گیا تھا۔
جب تک جناب نواز شریف نے احتجاجی انداز سیاست اختیار نہیں کیا تھا تب تک کسی نے ان کا نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔ اسی انداز کے بل بوتے پر وہ بالآخر ایک سیاسی لیڈر بن کر ابھرے۔ محترمہ بینظیر صاحبہ نے بھی جواب آں غزل کے طور پر وہی انداز اختیار کر لیا اور ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لئے بڑے بڑے جلسوں کو ذریعہ بنایا۔ ادھر سے ایک روڑہ جاتا تو ادھر سے ایک بھاری پتھر آتا۔ چینل تو صرف ایک ہی تھا۔ مگر دلچسپی برابر کی تھی۔ اب جب عمران خان سیاست میں وارد ہوئے تو ابتدا میں کسی نے ان کا نوٹس ہی نہیں لیا کیونکہ ان کا انداز بڑا شستہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح کا تھا۔ دھرنے کے دوران کسی نے انہیں سمجھایا کہ یہ انداز بیاں نہیں چلے گا۔ معلوم نہیں درپردہ کون کارفرما ہوتا ہے مگر کوئی ہوتا ضرور ہے۔ وہ کوئی جس نے نواز شریف صاحب کو جارحانہ انداز اختیار کرنے کی تربیت دی اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا کر دم لیا۔ کوئی ہے ضرور جس نے عمران خان کو اپنا لب و لہجہ بدلنے کی ٹریننگ دی کہ مخالف پر چھا جانے کے لئے مخالف کے لتے لینے پڑتے ہیں۔ عامیانہ زبان اور جارحانہ انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جب عمران خان نے یہ انداز اختیار کیا تو دنیا ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ تاحال عمران خان اقتدار کے ایوان میں داخل نہیں ہو سکے مگر انداز انہوں نے وہی رکھا ہوا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ایک دن وہ بھی کامیاب ہوں گے۔
یہ اور بات ہے جب بندہ وزیراعظم بن جاتا ہے تو اس سے ناشائستہ اور عامیانہ انداز کی توقع نہیں کی جاتی۔ ملک کا بڑا آدمی بڑی بات کرتا ہی اچھا لگتا ہے۔ چھوٹے لوگوں کے انداز میں اسے چھوٹی بات نہیں کرنی چاہئے۔
اس احتجاجی سیاست کے ڈانڈے ملانے کا خیال ہمیں یوں آیا کہ ابھی ابھی عزیزی بلاول نے بھی یہی انداز اختیار کیا ہے۔ ان کے پیچھے جو قوتیں ہیں وہ بھی انہیں جارحانہ اور جنگجویانہ انداز اختیار کرنے کی تربیت دے رہی ہیں جو ان کی عمر اور تجربے کے لحاظ سے بہت ہی بے وقت اور مضحکہ خیز لگتا ہے۔ عمران خان ایک عمر کا دریا پار کرکے سیاست میں آئے ہیں۔ زمانہ دیکھا ہے اور زمانے نے ان کو دیکھا ہے۔ سیاست سے پہلے انہوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔ چاندی کے پالنے میں جھولتے ہوئے سونے کا چمچہ منہ میں لے کر نہیں آئے۔ ان دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔ عمران خان کو نہ تو بلاول کو خطرہ سمجھنا چاہئے اور نہ اسے للکارنا چاہئے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بلاول کے منہ میں الفاظ ڈالے جا رہے ہیں۔ ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی وہ چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق نظر آتا ہے۔ پہلوان ہمیشہ اپنے برابر کے آدمی کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج پاکستان کے لوگ موروثی سیاست سے بیزار نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو بادشاہت کے انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام میں جوہر قابل موجود ہے۔
سیاست میں داخل ہونے والے لوگ جتنا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ٹانگیں کھینچنے اور گلا مروڑنے میں لگاتے ہیں۔ اس سے آدھا وقت اگر وہ پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کی تجاویز بروئے کار لانے پر لگائیں۔ تو شاید ان کے آنے کے امکان بہت روشن ہو جائیں۔
کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ راہداری منصوبہ بندی کی مخالفت وہی لوگ بڑھ چڑھ کر کر رہے ہیں جو ایک عرصے سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ وہ لوگ جو آنے والے دنوں میں حکمران بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کوئی سروے کروایا ہے۔ان کو معلوم ہے کہ یہ جو ’’مشرومز‘‘ کی طرح کے ’’ولایتی اور جدید تر‘‘ سکول کالج یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ کھل رہی ہیں ان کے اندر کیا بک رہا ہے۔ کسی نے پاکستان کی نئی نسلوں کے لئے نیا نصاب لکھنے کے لئے کوئی ’’تھنک ٹینک‘‘ بنایا ہے۔
ہر کوئی جو آتا ہے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسیاں ساتھ لے کر آتا ہے۔
ہر ’’موجود‘‘ کو ’’لا موجود‘‘ سے ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔
جو نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں کیا ان کے پاس کوئی نیا لائحہ عمل ہے جبکہ وہ خود اس پرانی بنی بنائی ڈگر پر چل رہے ہیں
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے