گوادر کی بندرگاہ مستقبل قریب میں بین الاقوامی صنعتی و تجارتی مرکز بن کر ابھرے گی جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریگی۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے اور چین کا پہلا تجارتی جہاز گوادر بندرگاہ سے روانہ ہو گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین اپنا تجارتی سامان باا ٓسانی مشرق وسطیٰ اور افریقہ پہنچا سکے گا۔ گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے پہلے تجارتی قافلے کے پائلٹ پراجیکٹ کا افتتاح کیا۔ افتتاح میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعلیٰ بلوچستان، وفاقی وزراءمسلح افواج کے سربراہان، فصل الرحمن، چینی سفیر سن وی ڈونگ اور چینی کمپنی کے عہدیداروں سمیت مختلف ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر چینی سفیر سن وی ڈونگ نے پائلٹ پروجیکٹ کیلئے حکومت اور افواج کا شکریہ ادا کیا اور افتتاح پر مبارکباد پیش کی۔ چینی سفیر نے اس ضمن میں ایف ڈبلیو او کی کاوشوں کو سراہا۔ چینی کمپنی سائنو ٹرانس نے بھی قافلے کو بہترین سکیورٹی فراہم کرنے پر حکومت اور فوج کا شکریہ ادا کیا۔گوادر بندرگاہ سے پہلے تجارتی قافلے کی روانگی سے پاکستان اور چین کی تاریخی دوستی کے عظیم سفر کا ایک اور سنگ میل عبور ہوا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کا خواب اب حقیقت بن گیا ہے۔ 100 سے زائد مال بردار ٹرکس کا قافلہ 29 اکتوبر کو کاشغر سے روانہ ہوا۔ اس قافلے کے ساتھ خنجراب سے پاکستانی تجارتی قافلہ بھی شامل ہوا جسکے بعد 150 ٹرکوں مشتمل قافلہ 12 نومبر کو گوادر پہنچا اور متوقع وقت سے ایک دن پہلے ہی پہنچ گیا۔ یہ تجارتی قافلہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات کا سفر کرینگے اور اسکے بعد یورپی یونین جائینگے۔ گوادر پورٹ کے ذریعے پہلی بار چینی مصنوعات مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کی جائیں گی۔گوادر بندرگاہ پاک چین دوستی کا نشان ہے۔ ECOہائی وے، کوسٹل ہائی وے اور سڑکوں پر مشتمل انفراسٹرکچر گوادر فری پورٹ کو وسط ایشیائی ممالک، خلیجی ریاستوں، چائنہ اور دیگر ممالک سے منسلک کر دےگا۔ 21ویں صدی کی جدید سہولیات سے آراستہ گوادر بندرگاہ پر نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاءکے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ انحصار اس پر ہو گا۔ گوادر بندرگاہ سے قریباً بیس لاکھ افراد کو روزگار مہیا آئے گا اور اربوں ڈالر زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ گوادر سے کراچی اور پھر قراقرم ہائی وے لنک توسیعی منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے جس سے چین کو بحر ہند تک رسائی حاصل ہو جائےگی ۔ ان رابطہ سڑکوں کو ”پاک چین اقتصادی راہداری“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس راہداری کی بدولت چائنہ کا دنیا سے فاصلہ کئی ہزار کلو میٹر کم ہو جائیگا۔ مثال کے طور پر چین کیلئے خلیج فارس کا تیل 16ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے قریباً3ماہ میں شنگھائی ایئر پورٹ اور تیل کی سپلائی بھی سارا سال جاری رہے گی۔ چین اپنی برامدات و درآمدات کیلئے اسی راہداری کو استعمال کریگا۔ اس ضمن میں پاکستان کو محصولات کی صورت میں اربوں ڈالر ملیں گے جو ملکی زر مبادلہ میں خاطر خواہ اضافے کا سبب ہونگے۔چین کی حکومت کی دلچسپی کے علاوہ حکومت پاکستان، افواج پاکستان شہروں کی طرح ترقی دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ گوادر کو جدید پر کشش ڈھانچوں کیساتھ دنیا کا بہترین تجارتی و معاشی مرکز بنایا جائے۔ تاجروں کا تجارتی مرکز بننے کے باعث گوادر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہو گا۔ ٹیکس استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور اسکی ترقی دوسرے علاقوں کی ترقی پر بھی اچھے اثرات مرتب کریگی۔ گوادر میں جدید طریقہ سے صنعتی، رہائشی و کاروباری سہولتیں اور سیاحوں کیلئے ساحل سمندر اور جدید ہوٹلوں کی سہولیات میسر ہونگی۔گوادر بندرگاہ پاکستان کی درآمدات و برآمدات کیلئے آپریشنل ہو چکی ہے۔ شہر میں ہسپتال، سٹیڈیم، بیوریجز، سوک سینٹر، کلچرل کمپلیکس، پارکس، پوسٹ آفس، پولیس اسٹیشن، انڈسٹریل اسٹیٹ، گورنمنٹ، دفاتر بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں جو سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں: گوادر شہر کے اندر 200کلو میٹر سے زائد طویل اور انتہائی کشادہ سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں مگر ان کوسٹل ہائی ویز 653کلو میٹر گوادر سے کراچی براستہ پسنی اور اومارہ مکمل ہو چکی ہے۔ موٹر وے M-8گوادر سے رتو ڈیرو صوبہ سندھ براستہ خوشاب اواران، خضدار اور تربت 820کلو میٹر مکمل ہو چکی ہے۔ قراقرم ہائی ویز کی آسائش و توسیع کا کام جاری ہے تاکہ ہر موسم میں قابل استعمال ہو۔ چائنہ اور پاکستان معاشی راستہ روڈ گوادر سے کاشغر ٹوٹل850کلو میٹر سے اب تک 550کلو میٹر مکمل ہو چکی ہے۔ سڑک کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ گوادر سے کاشغر تک ریل کی پٹری کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ گوادر ایئر پورٹ کی توسیع کی گئی ہے جبکہ گوادر بین الاقوامی ایئر پورٹ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ چائنہ کے تعاون سے پاکستان و چائنہ کی سرحد پر ڈرائی پورٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ گوادر گیس سپلائی پراجیکٹ اور گوادر انڈسٹریل گرڈ اسٹیشن کا افتتاح ہو چکا ہے۔ گوادر صنعتی علاقے کیلئے پانی کے صاف پانی کا پلانٹ جس کی صلاحیت 20ملین ہے اس کا 90فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔دنیا کی گہرے پانیوں کی تیسری بڑی بندرگاہ جہاں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے۔ اب یہ وقت ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک، افغانستان اور چین کے مغربی علاقوں کے ٹرانزٹ ٹریڈ کا سب سے اہم مرکز گوادر ہے۔ گوادر بندرگاہ کی بین الاقوامی حیثیت چند ممالک کے سینے میں سانپ بن کر لوٹتی ہے۔ اس کے علاوہ داخلی عناصر بھی اس منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ عسکری و سیاسی قیادت کا اس ضمن میں ایک صفحے پر ہونا خوش آئند ہے کیونکہ سی پیک کا دشمن درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ کاشغر سے گوادر تک پہلے تجارتی قافلے کی آمد تاریخی لمحہ ہے۔ سیاسی وعسکری قیادت کے عزم متزلزل سے یہ منصوبہ مخض دو سال کی قلیل مدت میں حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔