سی پیک کے حوالے سے سبز باغ دکھانے کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس سے پوری قوم کو یہ توقعات دلائی جا رہی ہیں کہ اب پاکستان میں بھی امریکہ ، یورپ اور متحدہ عرب امارات یا برونائی اور شنگھائی جیسی ترقی پیدا ہو جائے گی اور گوادر سے لیکر پاکستان کا چپہ چپہ رات کے سیاہ اندھیروں میں بھی روشنیاں جگمگا اٹھیں گی ۔ دعویٰ کرنے ، باتیں ملانے ، سبز باغ دکھانے اور حقائق کی کشا کش میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ اگر حکومت بچ گئی تو خوابوں اور باغوں کا یہ سلسلہ آنیوالی حکومت تک چلے گا ۔ حکومت تو شاید بچ ہی گئی ہے کیونکہ کرپشن کے کوہ ہمالیہ اور کے ٹو بھی موجودہ حکومت کے منتروں سے سر بسجدہ ہو گئے ہیں ۔ کرپشن کا ہر پہاڑ حکومت کی ہیبت سے سمٹ کر رائی بن جاتا ہے ۔ تمام حقائق ، ثبوت ، چشم دید گواہ اور ملک کی ابتر صورتحال پس منظر میں چلی جاتی ہے ۔ ترقی ، کامیابی ، خوشحالی کا ہر دروازہ موجودہ حکومت پر کھلا ہوا ہے جبکہ عوام پر مہنگائی ، بیروزگاری ، دہشتگردی ، حادثات اور اموات کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔ جس سی پیک پر حکومت اتنا اچھل رہی ہے وہ پہلے سی پیک کی الجھنیں ، گرہیں اور تنازعات تو پہلے طے کرے ۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے اس حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ سی پیک روٹ پر بہت اختلافات ہیں ۔ حال ہی میں پرویز خٹک کے مشیر برائے اطلاعات و اعلیٰ تعلیم مشتاق احمد غنی نے سخت لب و لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک منصوبے کا روٹ ہماری نعشوں سے ہی گزر کر تبدیل ہو سکتا ہے ۔ مشتاق غنی بھی کیا سادہ ہیں کہ جس کے سبب بیمار ہوئے ، اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ۔ یا حضرت ! لاشیں گرانا اور لاشوں سے گزرنا موجودہ حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ آپ کیوں بن موت مرنے پر تلے ہیں ۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر روز ڈیڑھ سو افراد غیر طبعی موت مرتے ہیں یا مار دیئے جاتے ہیں ۔ یہ کوئی پلڈ اٹ کی سروے رپورٹ نہیں ۔ یہ میری ذاتی تحقیق ہے ۔ جو اعداد و شمار دونوں شریف بھائی اور انکے حواری دیتے ہیں یہ اعداد و شمار تو زبان پر بھی چڑھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ اگر پاکستان نے ترقی کی ہوتی تو ایک عام پاکستان خوشحال نظر آتا ۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ میاں برادران ، اسحاق ڈار ، خواجہ آصف ، سعد رفیق ، دانیال عزیز ، طلال چوہدری ، پرویز رشید ، عابد شیر علی ، پرویز ملک اینڈ کمپنی کے اثاثے لاکھوں سے اربوں کے اہداف کو چھو رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف تو اس وقت ایک کھرب پتی بلکہ کھربوں پتی بن چکے ہیں کسی دن یہ بریکنگ نیوز بھی سماعت گوش ہو گی کہ میاں برادران اینڈ کمپنی دنےا کے سب سے امیر لوگ ہیں ۔ اتنی دولت کا کیا کرنا ہے ۔ لوگوں کی آہیں لیکر یہ دولت برتنی بھی نصیب نہیں ہو گی ۔ جس دولت سے آدمی عزت ، محبت اور اعتبار نہ خرید سکے اس دولت کا کیا اچار ڈالنا ہے ۔ اس ملک میں لوگ جینے سے بیزار ہیں ۔ لوگ عین جوانی میں حالات سے تنگ آ کر خود کشی کر رہے ہیں ، سی پیک کے پس پشت بہت سے مفادات ہیں ۔ قارون کا خزانہ نو سو اونٹوں پر جاتا تھا اور ان کا نو سو جہازوں پر لادا جائے گا جب یہ چین کا رخ کرینگے اور چین کا چین خطرے میں ڈالیں گے ۔ سی پیک سے میاں برادران اور انکے وزیروں ، مشیروں ، رشتہ داروں کے جتھوں کے مفادات وابستہ ہیں ۔ چین اور ترکی سے دوستی ، مراعات ، پروٹوکول کی وجوہات آپکو 2017ءمیں مل جائیں گی ۔ پاکستان کو کیا فائدہ پہنچے گا ۔ زیادہ تو ن لیگ اور ساتھ لگنے والے اسے کیش کرینگے ۔ کرپشن کے اس ریلے میں جو میلہ لگایا ہوا ہے اُس سے پاکستانی عوام معاشی ، معاشرتی اور اعصابی طور پر معذور ہوتی جا رہی ہے ۔ ہر ہفتے خود کش دھماکوں میں پچاس سے سو افراد مر جاتے ہیں ۔ غیر قانونی تارکین وطن پاکستان میں سازشیں کر رہے ہیں ۔ لاکھوں افغانی ہمارے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں ۔ ہمارا کھا کر ہماری جڑیں کھود رہے ہیں ۔ ملک کے ہر حصے میں دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ وزیر داخلہ اسلام آباد میں بیٹھ کر پریس کانفرنسیں کر کے خود کو سلطان راہی سمجھتے ہیں جب جب ملک کو حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ منہ چھپا کر غیر ملکی دوروں پر نکل جاتے ہیں ۔ وزیر داخلہ کو ایسے وقت میں باہر جانے کی کیا ضرورت تھی ۔ جونہی ملک پر افتاد آتی ہے یا انہیں حکومت جانے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے ، یہ لوگ فوراً باہر چلے جاتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں ملک بدترین حالات سے گزرا لیکن مجال ہے جو میاں نواز شریف کے دوروں میں کمی آئی ہو ۔ لوگ بم دھماکوں سے مر رہے ہوتے ہیں یہ قازقستان ، آذر بائیجان ، برطانیہ ، چائینہ ، ترکی ، امریکہ کے دوروں پر چلے جاتے ہیں۔
ابھی ایک تابعدار صدر رکھ کے تسلی نہیں ہوئی تھی تو اچھے بھلے گورنر سندھ عشرت العباد کو ہٹا کر ایک نہایت بوڑھا ، ناتواں گورنر لگا دیا گیا ۔ گورنری کا حلف لینے کے دوسرے دن جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔حیرت ہے کہ ملک کے دو اہم اور حساس ترین عہدوں پر معمر ترین اور بیمار ترین افراد تعینات کر دیئے گئے تاکہ وہ امور مملکت میں کسی طرح مداخلت نہ کریں ۔ انہیں علامتی طور پر صدر اور گورنر بنا کر میاں برادران نے بھی ذہانت ، دور اندیشی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے ، مورخ اسکی داد دینے پر مجبور ہو گا بشرطیکہ وہ ن لیگ کا نہ ہو ۔ کرپشن کی ایک حد ہوتی ہے لیکن جب نفس امارہ حاوی آ جائے اور خواہشوں پر بدی کا غلبہ ہو تو انسان مالی طور پر ہی کرپٹ نہیں ہوتا ، اخلاقی طور پر بھی کرپٹ ہو جاتا ہے ۔ خواہشوں اور خوابوں کو ضرور پورا کرنا چاہئے کیونکہ ہمیں اپنی خواہشوں اور خوابوں کو پورا کرنے کیلئے دنیا میں دوبارہ نہیں بھیجا جائیگا لیکن خوابوں اور خواہشوں کو کرپشن سے آلودہ کر کے مکروہ نہ کیجئے ۔ خدارا۔۔۔ اس عظیم ملک میں کرپشن کو ٹریڈ مارک نہ بنائیے ۔ اپنے خوابوں اور خواہشوں کے ملغوبے کی خاطر وطن عزیز پر کرپشن کا لیبل چسپاں نہ کیجئے ۔