پانامہ کا ایشو سپریم کورٹ میں زیرسماعت آجانے کے بعد اب اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس سے ہیجان میں کمی آئی ہے جسں نے پورے ملک کو گرفت میں لے رکھا تھا۔ہم ویسے ہی ہیجان ذدہ قوم ہیں۔اس پر بے بسی کا احساس کہ اتنا بڑا سکینڈل سامنے آیا اور پتہ تک نہ ہلا۔سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا۔ یہ تاثربھی ضرور پیدا ہوا کہ ایوان میں رونق آفروز وقت کے مرہم کے منتظر ہیں اور ان کے ذہن میں ہے کہ ہر گزرتا دن سکینڈل کی شدت کو کم کر رہا ہے اور پھریہ بھی وقت کی دھول میں عنقا ہو جائے گا،مگر اب کی بار ایسا نہیں ہونا تھا اور نہ ہونا چاہے تھا۔ اگرچہ ماضی میں ایسا با ربا رہو چکا ہے۔ کسے یا د ہے کہ سرکاری اور نجی بینکوں کے کھربا کھرب کے قرضے معاف کئے جاتے رہے۔بہت نام آئے مگر ایک بار بھی اس معاملہ کی تحقیقات نہیں کی گئی۔کیوں؟اس لئے ہر جماعت، گروہ،یا سیاسی تقسیم میں قرضے معاف کرانے والے موجود ہیں۔ایسے لوگ سیاست پر سرمایہ کاری ہی اس لئے کرتے ہیں کہ احتساب سے ماورآ رہیں۔کسی کو فنانس کمپنیوں کا ایشو یاد ہے ؟ا اس میں کسی ذمہ دار کو سزا ہوئی؟کبھی کبھی خون کو گرمانے کے لئے قرضوں کی معافی کے الزام کا ذکر ہو جاتا ہے، اس کا مقصد بھی کسی طور لوٹی رقم کی برامدگی نہیں ہوتا بلکہ تکلیف تو کچھ اور ہوتی ہے مگر اس کا اظہار کہ فلاں نے قرضے معاف کرا لئے ،کے الزام سے کیا جاتا ہے۔ یہ بھونڈا طرز سیاست کب تک اس قوم کی گردن پر مسلط رہے گا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ برسہا برس پہلے اس معاملہ کی تحقیق ہو جانا چاہیے تھی۔اس کی روشنی میں ضابطے بن جاتے اور جو بھی قرضہ معاف ہوتا ،شفاقیت کے تحت اس کی پوری تفصیل بیان کر دی جاتی۔ مگر چونکہ اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھونا چاہتے ہیں اس لئے قانون کو واضح نہیں کیا جاتا ۔ ماضی کے اس رستے ناسور کی جمہوری یا آمرانہ دونوں طرح کی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔آج بھی اس کا ذکر ہوتا ہے۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان پر ہزار اعتراضات ہو سکتے ہیں۔مگر ایک بات کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے دو انتہائی سنجیدہ ایشوز پر قوم کو جگانے کی کوشش کی،ان میں سے ایک انتخابی دھاندلی اور دوسرا بااثر افراد کی کرپشن ہے۔اگر ان دونوں سلگتے ایشوز کو حل کرلیا جائے تو اس سے پاکستان کی ترقی کا سفر بہت ہی تیزی سے طے کیا جاسکتا ہے۔ کوئی کچھ کہتا رہے مگر یہ عمران خان کے دھرنے کا ثمر ہے جس کے باعث پارلیمانی کمیٹی بنی اور اس میں انتخابی اصلاحات کا کام شروع کیا گیا ہے۔اگرچہ اب اس تک اسے مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جبکہ انتخابات میں ایک سال سے کچھ ذائد رہ گیا ہے اس کا م کو مکمل کرکے تیاری کر لی جائے تاکہ آئندہ انتخابات اصلاح شدہ نظام کے تحت ہوں اور ان الزامات سے نجات ملے جو نتائیج کے بعد لگتے ہیں۔ملک میں کرپشن کی بات ہمیشہ کی جاتی رہی ہے۔یہ بات برائے بات ہی ہے۔بااثر لوگ لوٹ مار کے لئے ہر حربہ اور ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کے خلاف کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔حکومت میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے ایک چیلنج عموما دیا جاتا ہے کہ کسی کو شکائت ہے تو عدالت میں چلا جائے۔یہ رعونت کی انتہا ہے کیونکہ ملزم کو پتا ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملنے والا ہے اور عدالت تو ثبوت مانگتی ہے۔اس طرح حکومت میں بیٹھے لوگ احتساب کے ہر خوف بالا تر ہو جاتے ہیں۔پانامہ سکینڈل سامنے آیا تو یہ ایک معمولی سا مسلہ تھا ۔اس میں شدت کیوں پیدا ہوئی؟اس لئے کہ سرکار کے اشارہ وابرو کے منتظر ادارے ہاتھ پے ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور صورتحال کو بگڑنے دیا۔عمران خان نے کرپشن کے مسئلے پر اظہار خیال شروع کیا اور ابتدائی طور پر اسکی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، یہ الگ بات ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد جب حکومت نے کمیٹی تشکیل دی تو کمیشن کے ٹی او آرز پر معاملہ رک گیا اور پھر عوام نے یکم نومبر کے وہ واقعات دیکھے جو ہر گز رونما نہیں ہونے چاہیئے تھے جن میں سے ایک میں خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کو روکا گیا اور انکے قافلے پر اندھا دھند آنسو گیس کے شیل برسائے گئے اسکے سیاسی مضمرات ہو سکتے ہیں ،پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پورا یقین ہے کہ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ اس واقعہ کو ملکی مفاد میں نظر انداز کر دیں گے، حکومت نے اس معاملے میں جس کوتاہ بینی کا ثبوت دیا ہے اس پر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے، عمران خان نے کرپشن کیخلاف تحریک کو ایک انتہا پر پہنچا دیا ہے جسکے بعد اب ایک ہی آپشن ہے کہ اس معاملے سے نمٹنے کیلئے جو ممکن ہو کیا جائے، سپریم کورٹ اپنے طور پر اس ایشو کو دیکھ رہی ہے اور جلد اس کوئی نہ کوئی فیصلہ صادر ہوجائے گا ،مگر اس سے بڑھ کر ہمیں کرپشن کا سد باب کرنے کے ذمہ دار اداروں کے اندر اس عفریت سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی، ملک کے اندر بدعنوانی کیخلاف طرح طرح کے قوانین نافذ ہیں ان سب کو یکجا کر کے ایک موثر قانون بنا دیا جائے اور ایسا انتظام ہونا چاہیئے جس میں الزام کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات ممکن ہو سکے اور ایسا مکینزم بھی ہو جس میں قانون کو محض اپنی ذاتی خواہش یا انتقام کیلئے استعمال کرنا بھی ممکن نہ ہو، ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ نیب کے ادارے کو2002کے انتخابات سے پہلے اور بعد اسوقت کی کنگز پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے استعمال کیا گیا، کیا اس معاملے کی بھی تحقیقات کرنا ضروری نہ ہے؟ یہ پانامہ کے ایشو پر پیدا ہونے والے دباؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت نے نیا کمپنیز قانون 2016 ایک آرڈیننس کے زریعے نافذ کر دیا ہے، اس قانون میں اب آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری، کسی بھی کمپنی کے حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو منظر عام پر لانے کے بارے میں قانون میں شقیں ڈالی گئی ہیں، نئے قانون کی وجہ سے ٹیکس بچا کر پیسے بیرون ملک لے جانے حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کی روک تھام کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ حکومت کی جانب ایک اچھی پیش رفت ہے، ایف بی آر، نیب صوبائی اینٹی کرپشن کے ادارے اگرچہ کام کر رہے ہیں مگر انکے اندر کرپشن سے لڑنے کی نہ صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی عزم دکھائی دیتا ہے، اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کر دیا جائے جو مذکورہ بالا اداروں کی صلاحیت میں اضافے کیلئے تجاویز مرتب کرے، آج2016میں انتخابی دھاندلیوں اور کرپشن کیخلاف عوام کا دباؤ اپنی انتہائی سطح کو چھو رہا ہے، ان دونوں گندی نالیوں میں اپنے ہاتھ غلیظ کرنے میں ملوث لوگوں کو اس سمجھ جانا چاہیئے کہ عوام انکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ وقت کی نبض کو سمجھے اور اپنی اصلاح کر لے ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام کا ہاتھ ہوگا اور صاحب منصب کا گریبان۔