ویسے تو پاکستان کے کسی بھی محکمے میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا لیکن کچھ محکمے ایسے بھی ہیں جو کہ کمرشل ہیں ان میں بھی اب یہ رواج پڑ گیا ہے ہمارے ملک میں یا تو رشوت یا تگڑی سفارش ہو تو آپ کا ہر کام ممکن ہے جس میں خاص طور پر ہمارا پولیس کا محکمہ سب سے آگے ہے اور یہ کبھی بھی نہیں سدھر سکتا چاہئے جتنے بھی قانون نافذ کئے جائیں یا جدید ڈیسک بنائے جائیں پولیس تو وہی ہی ہے اندر گھستے ہی آپ کو سر سے پا¶ں تک گھورنے کے بعد یہ بھی نہیں کہیں گے کہ جناب آپ تشریف رکھیں صرف اشتہاری مہم تک ہی محدود ہے۔ فوٹو سیشن کرا کر فیس بک پر لگوا دیتے ہیں اور ہماری عوام بھی اسے لائیک کردیتی ہے اتھارٹیز خوش ہو جاتی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میرے ایک دوست جو کہ سعودیہ میں بیس سال رہنے کے بعد اپنے ملک میں واپس آئے اور سامان جو کہ گھریلو استعمال کا تھا بذریعہ ہوائی جہاز بک کرا دیاگیا میںنے پوچھا بھائی آپ بیس سال بعد واپس کیوں آ رہے ہو کہتے ہیں اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر میں اپنی والدہ کےلئے واپس آیا ہوں۔ میں نے کہا یہ بات میری سمجھ میں آتی ہے لیکن ملک کا حال تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ وہ سامان لینے ائیرپورٹ پر گئے تو انہوں نے کہا کہ اس کی کلیئرنس ائیرپورٹ پر نہیں بلکہ متعلقہ آفیسر کسٹم کے آپ کو ڈرائی پورٹ پر ملیں گے۔ وہاں گئے انہوں نے کہا کہ میں ائیرپورٹ پر آ¶ں گا اور سامان کھول کر چیک کروں گا پھر کلیئر ہو گا۔ اسی دوران میں نے ایک ائیرلائن کے آفیسر سے بھی رابطہ کیا انہوں نے بہت ہی اچھی تجویز دی کہ میں ایک کلیئرنگ ایجنٹ کا نمبر اور نام ایس ایم ایس کر رہا ہوں آپ اس سے رابطہ کرلیں فوری کام ہو جائے گا۔ میں نے کال کی اور اس نے بھی بہت اچھا جواب دیا کہ آپ مجھے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی کاپی دے دیں اور تقریباً چھ سے دس ہزار روپے یہ ایک گھنٹے میں سامان آپ کو مل جائے گا۔ متعلقہ افراد سے اس کا رابطہ تھا جب میں نے اپنے دوست سے بات کی جس کا سامان تھا اور وہ بیس سال بعد واپس آ رہا تھا کہنے لگاکہ میں کیوں دوں پیسے میرا گھریلو استعمال کا سامان ہے اس پر کسٹم تو نہیں لگے گا میں خاموش ہو گیا کہ میں نے جب وہاں سے بک کرایا تو صرف ائیرلائن کو رقم دی تھی اور پھر یہ رشوت میں نہیں دے سکتا کیونکہ لینے اور دینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے۔ میں نے پھر کہا کہ بھائی میاں آپ کو باقاعدہ اس رشوت یا بھتہ کی رسید بھی ملے گی۔ اب مسلسل تین دن تک وہ کسٹم انسپکٹر صاحب نہ تشریف لائے اور نہ ہی انہوں نے کاغذات پر دستخط کئے کیونکہ ہم بغیر رشوت کئے سامان کلیئرنس کراناچا رہے تھے۔ چوتھے دن میں خود ساتھ گیا معلوم ہوا کہ دستخط تو کر دئیے گئے ہیں لیکن مہر نہیں لگائی گئی گویا انہیں شدید غصہ تھا کہ میرا حصہ مجھے کیوں نہیں ملا اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے کارگو کمپنی اور سول ایوی ایشن نے سٹوریج کے نام پر جرمانہ بھی ڈال دیا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس پر اپنے ٹھیکیدار رکھے ہوئے ہیں انہوں نے ان ڈائریکٹ بھتہ وصول کیا اور کارگو کمپنی کے اہلکار نے بھی رقم لی اور پھر سامان چار دن کے بعد حوالے کیا گیا۔
اصل میں جس ملک میں بڑے لوگ کھا رہے ہوں اور ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر گھر والے چھوٹے بھی اسی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ سامان تو ہم نے لے ہی لیا مگر وہ دوست جو باہر کے ملک بیس سال رہ کر آیا تھا ابھی تک پریشان ہے کہ میں نے واقعی غلطی کی ہے واپس آ کر۔ میں نے اسے بہت تسلی دی کہ بھائی اب اگر یہاں رہنا ہے تو یہاں کے اصولوں پر ہی چلنا پڑے گا اور اسے یہ بھی کہا کہ آپ اگر پہلے ہی میرے مشورے پر عمل کر لیتے تو یہ سامان پہلے دن ہی مل جانا تھا پیسے تو ویسے بھی دینے ہی تھے۔ کیا ان محکموں کو کوئی چیک کرنے والا ہے۔
جب تک ہم خود اپنے آپ کو درست نہیں کرینگے ہمارا ملک بھی درست سمت پر نہیں چل سکتا۔ کبھی افسران بالا نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ ہمارے ان اداروں کو مسافروں کو کی مکمل رہنمائی کرنی چاہئے اور بجائے مشکلات پیدا کرنے کے آسانی لانی چاہئے جو بھی باہر کے ملک سے آئے اسے خوش آمدید کہیں اور مکمل رہنمائی کریں تاکہ ہمارے جنوبی پنجاب میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ آئے اور یہ پسماندہ علاقہ ترقی کر سکے ۔
” کرپشن مافیا“
Nov 15, 2016