ہارنے اور جیتنے والے دونوں غیریقینی صورتحال سے دوچار

Nov 15, 2016

صائمہ عمران
حے۔۔حو۔۔حائے ٹرمپ از ناٹ اوور پریزیڈینٹ تواتر سے اس طرح کے نعرے لگاتے امریکی لڑکے اور لڑکیاں سرد موسم کی شدت سے لا پرواہ نیو یارک کی سڑکوں پر تھے پاکستانی ہو نے کے ناطے جلسے جلوس اور نعرے ہمارے لئے تو نئے نہ تھے مگر امریکی انتخابات کے حوالے سے یہ ما حول با لکل نیا اور چونکا دینے والا تھاالیکشن نائٹ کے وہ لمحات بھی ہمارے زہن میں اب بھی اسی طرح تازہ تھے جیسے ابھی کی بات ہو امریکہ کی تاریخ میں پہلی مر تبہ صدارتی امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے والی خاتون کے الیکشن ہیڈ کوارٹر میں انتخابات کے ابتدائی نتائج کے وقت کیسی رونق تھی اور پھر دو گھنٹو ں کے اندر ماحول کیسے بدل گیا صرف ہم اور دیگر اقوام عالم ہی نہیں ڈیمو کریٹ اور ریپبلیکن دونوں ہی نتائج پر حیران تھے جیتنے والوں کو بھی یقین نہیں ٓرہا تھا اور ہارنے والے بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار تھے نیویارک کے گلیمر کی طرح خوبصورت جیوسٹ سنٹر کی روشنی اور خوبصورتی بھی اپنے ہالز میں موجود ہزاروں ڈیمو کریٹ حامیوں کی اداسی دیکھ کر ماند پڑ گئی یہی نہیں ہم اپنے دیگر فارن پریس سنٹر کے ساتھیوں کے ہمراہ نیو یارک کے دل یعنی ٹائم سکوائر پہنچے تو یہاں بھی معمول کے برعکس خاموشی اور سناٹے کو ہی موجود پایا نیو یارک سے اگرچہ سینیٹر کلنٹن بھاری اکثریت سے جیت چکی تھیں مگر کہیں خوشی دیکھنے کو نہیں مل رہی تھی امریکی عوام انتخابات کے اتنے بڑے اپ سیٹ کو تسلیم نہیں کر پا رہے تھے اور پھر صبح کا سورج طلوع ہو تے ہی سوشل میڈیا نے ان کے غم و غصے کے جذبات کو اظہار کی راہ دکھا دی پہلا میسیج سوشل میڈیا پر شئیر ہوا :کیا اج ہم نئے امریکہ میں آنکھ کھول رہے ہیں جہاں اب نفرت اور تفریق کے اصولوں پر حکومتوں کا انتخاب ہو گا :ان چند الفا ظ نے جوانوں میںایسی اگ بھڑکا ئی کہ وہ دیو انہ وار سکولوں کالجوں اور گھروں سے نکل کر پلے کارڈ اٹھا ئے سڑکوں پر آ گئے ملک کی کئی ریاستوں میں احتجاج شروع ہوگیا۔ 7 ریاستوںمیں تو اس احتجاج نے ایسا زور پکڑا جو آج تک جاری ہے شکاگو‘ سان فرانسسکو‘ لاس اینجلس‘ اوہائیو‘ فیلوڈیلفیا‘ کسلیوانیا ‘ نیویارک میں تو یہ جوان کسی کے بس میں نہیں ا ٓر ہے ہمارے قارئین نے اگر سینیٹر ہیلری کی اخری تقریر سنی ہو تو انہیں ان کے یہ الفاظ یا د ہو نگے :نتائج ہمارے لئے تکلیف دہ ہیں اور ان کا غم کافی دیر تک رہے گا : انتخابی نتائج کے چھٹے روز بھی اسی شدت سے نو منتخب صدر کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا جاری رہنا اس حقیقت کا عکاس ہے کہ سینیٹر کلنٹن نے غلط نہیں کہا۔
امریکیوں کے لئے ہی نہیں2016 ء کے حالیہ امریکی انتخابات کو تو اس وقت دنیا کے دلچسپ ترین انتخابات اور حیران کن انتخابی نتائج قرار دیا جا رہا ہے۔ صدارتی انتخابات کے پرائمری آغاز سے لے کر 8 نومبر کے نتائج تک فارن افیئرز کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے افراد‘ حالات و واقعات اور صدارتی امیدواروں کے بیانات ‘ پالیسیوں ‘ تقریروں اور میڈیا کے تجزیوں کے تناظر میں مسزکلنٹن کو ہی وائٹ ہاؤس میں بیٹھا د یکھا جا رہا تھا مجھے یاد ہے چھ نومبر کو فلوریڈا جہاں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو رہا تھا کی میامی یو نیورسٹی کے ڈیمو کریٹ اور ریپبلیکن طالبعلموں کے ساتھ ایک نشست کے دورا ن ہمیں بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ ریپبلیکن نتائج آنے سے قبل ہی اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں یہی نہیں انہوں نے ان خیالات کا اظہار بھی کیا کہ ٹرمپ نے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور انتخابات کے بعد پارٹی کی از سر نو تنظیم سازی کی جائے گی ایسے میں امریکی عوام کے خاص گروپ نے دنیا بھر میں ڈیموکریٹک امیدوار کی فتح کے حوالے سے لگائی گئی ساری توقعات کو ملیا میٹ کر کے امریکہ کو حیران کن صورتحال سے دوچار کر دیا۔
پولنگ کا وقت ختم ہونے سے لے کر ابتدائی نتائج آنے تک امریکن تھنک ٹینکس اور عوام سمیت ریپلیکن خود یہ امید نہیں کر رہے تھے کہ اگلے چند گھنٹوں میں وہ ملک کے حیران کن انتخابی نتائج دیکھنے والے ہیں۔ فارن پریس سینٹر کے ساتھ رہتے ہوئے گزشتہ د و ہفتوں کے امریکہ میں قیام کے دوران دنیا کے کئی ممالک کے صحافیوں کے ساتھ ہمارا بھی یہی ذہن بن چکا تھا کہ مسز کلنٹن حکومت بنا کر امریکہ کی نئی تاریخ بنانے جا رہی ہیں مگر اس یقین کی صورتحال میں امریکہ کا ایسا بڑا طبقہ جو ٹرمپ کے بیانات اور ڈیموکریٹس کی گزشتہ 8 سالہ پالیسیوں سے نالاں تھا اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے دونوں پارٹیوں کی روایتی سوچ سے ہٹ کر تیسرے فرد کو مو قع دینا چاہتا تھا پھر اس سوچ کے حامل گروپ نے اس غیر یقینی صورتحال میں خاموشی سے ٹرمپ کو بیلٹ کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کا اختیا ر دے دیا ۔ قومیت کا نعرہ لگانے والے یہ ووٹر ٹرمپ کا وہ ٹرمپ کارڈ بن گئے جس نے دنیا کو حیران و پریشان کر چھوڑا ورنہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کی وجہ سے خود ریپلیکن پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ عملی طور پر ان کے خلاف تھی سونے پر سہاگہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس نیشنل سیکورٹی کا بیک گراؤنڈ ہے اور نہ ہی فارن پالیسی کا تجربہ۔ اوپر سے ان کے بیانات نے ملک کے طول و عرض میں رنگ و نسل کی الگ تفریق پیدا کر دی تھی۔ امریکہ کے ہی نہیں اگر قارئین کو یاد ہو تو 2015ء کے اسرائیل کے انتخابات کے نتائج بھی غیر متوقع ہی تھے یہی نہیں خود امریکہ کی تاریخ دیکھیں تو 1824ء میں اینڈریو جیکسن کو صدارتی انتخابات میں جس طرح عوام کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی وہاں الیکٹوریل کالج کم ہونے کی وجہ سے وہ بھی حکومت نہ بنا سکے تھے لیکن اس وقت کے اور آج کے امریکہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت 1820ء کے بعد سے دنیا بھر سے لوگ امریکہ آ رہے تھے اور یہاں کئی رنگوں و نسلوں کا امتزاج شروع ہو چکا تھا اب 2016ء میں امریکہ میں یہ تقسیم انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اس وقت امریکہ دو حصوں میں بٹتا نظر آ رہا ہے۔ ایک بڑا وسطی امریکہ کا طبقہ قومی سوچ رکھنے والا اور دوسرا بڑا حصہ لبرل سوچ کا ہے۔ یہی لبرل سوچ کا طبقہ اس وقت انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کر رہا کیونکہ گلوبلائزیشن اور میڈیا کے اس دور میں اس طبقہ کے ذہن میں مزید وسعت پیدا ہوئی ہے اور یہ امریکہ کی باگ دوڑ کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں نہیں دیکھ سکتے جو نسلی‘ لسانی اور انسانیت مخالف پالیسی کے ساتھ چل رہا ہو۔ یہی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے بظاہر ملک میں 290 الیکٹورل ووٹ لینے کے ساتھ مضبوط حکومت بنانے کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ اینڈریو جیکسن کی شکست کی طرح اب ہیلری کلنٹن کی شکست کو بھی ریپلیکن تسلیم نہیں کر رہے۔ اس لئے باوجواس کے ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں یہ پیغام دے دیا کہ ملک میں جو تقسیم ہو رہی ہے اسے نہیں ہونے دینگے اور ساتھ ہی اسی سوچ کی ترجمانی کرتا سینٹر کلنٹن کا بیان کہ ملک میں جو تقسیم نظر آرہی ہے وہ ہماری توقع سے زیادہ ہے۔ عملی طور پر نو منتخب صدر اور خود سینیٹر کلنٹن اس تقسیم کی خلیج کو ختم کرنے میں بے بس ہی نظر ا رہے ہیں امریکہ کا جوان ووٹر ہمیں ملک بھر کے شہروں کی سڑکوں پر نعرے لگاتا مل رہا ہے۔یہ امریکہ کا جوان طبقہ کیوں احتجاج کر رہا ہے اور ایسا کرنے سے انہیں کیا فائدہ ہو گا اس طرح کے کئی سوالات کے جوابات حاصل کرے کے لئے نیویارک کے ٹائم سکوائر،یو نین سکوائر اور ٹرمپ ٹاور کے درمیان مظاہرے میں شریک لڑکے اور لڑکیوں سے بات کی تو انہوں نے کہا ہم آئینی طور پر نتائج کو تسلیم کرتے ہیں مگر ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہوسکتا اور اگر ہم نے اس وقت کے انتخابات میں اپنا ا حتجاج ریکارڈ نہ کروایا تو آنے والے لوکل انتخابات میں پھر یہی صورتحال سے دوچار ہونگے۔ سینٹر کلنٹن کے سپورٹر تو اتنے جذباتی تھے کہ بات کرنے پر بھی رونے لگتے ۔ دو نے تو یہ بھی بتایا کہ جب سے ہم نے نتائج سنے ہم صحیح سو نہیں پارہے سینئر کلنٹن کے سپورٹر جذباتی انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ تک بول رہے ہیں کہ کلنٹن آگے بڑھیں اور بتائیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ۔ امریکہ کے نو منتخب صدر کی نیو یارک مین ہینٹن میں رہائش گاہ ٹرمپ ٹاور کے باہر ہزاروں کی تعداد میں مشتعل نو جونوں کو قابو کر نا پو لیس کے لئے مشکل ہو رہا تھا یہی نہیں امریکی کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی نو منتخب صدر کی رہائش گاہ کے با ہر حفاظتی انتظامات کے طور پر سیمنٹ اور لو ہے کی رکا وٹیں کھڑی کرنا پڑ گئیں اور نو منتخب صدر نے بھی جو اس وقت اپنی رہا ئش گاہ پر مو جود تھے باہر نکل کر مظاہرین کا سامنا نہیں کیا اور اگلے روز خامو شی سے واشنگٹن صدر اوبامہ کو ملنے اہلیہ کے ہمراہ روانہ ہو گئے ۔ٹرمپ ٹاور کے با ہر موجود مظاہرین سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ جوان لو گ اس لئے احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے آج اگر ہم خاموش رہیں گے نو منتخب صدر اپنے خیا لات کو عملی جامعہ پہنا لیں گے اس وقت ملک میں گیارہ ملین افراد ایسے ہیں جن کے پاس رہائشی دستا ویزات نہیں اس کے علاوہ ایل جی بی ٹی رائٹس اور ماحول کی پالیسیوں سمیت نومنتخب صدر کی ایسی کئی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے امریکی کے مستقبل کو نقصان پہنچ سکتا ہے ان مظاہرین کی رائے کے مطابق ان مظاہروں کے حوالے سے ہمیں کوئی ہدایات نہیں دے رہا الیکٹورل کالج کے زریعے ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے سوشل میڈیا ہمارے درمیان کمیونیکیشن کا زریعہ بنا ہوا ہے ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ ہم زیادہ دیر تک اس احتجاج کو جاری نہ رکھ سکیں لیکن سوشل میڈیا کے زریعے ہمارا احتجاج جاری رہے گا ۔

صدارتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کے خلاف امریکی شہریوں کا غصہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ احتجاج کا سلسلہ انتخابی نتائج کے دوسرے روز بھی اسی طرح جاری ہے۔ نیویارک میں ٹرمپ ٹاور جہاں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش ہے اس وقت نیویارک کے ناراض شہری یہاں جمع ہو کر مسلسل احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ یونین سکوائر سے لے کر ٹرمپ ٹاور تک نوجوان امریکی شہریوں کا جم غفیر نظر آتا ہے۔ جو نتائج کے دو دن گزرنے کے بعد بھی حیرانی کی کیفیت سے نکل ہی نہیں پا رہے ہیں۔ یہی نہیں ان نوجوانوں نے امریکہ کے نومنتخب صدر کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے یونین سکوائر کے باہر دیوار پر ہزاروں کی تعداد میں ان نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سگنیچر مہم بھی شروع کر چکے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 9/11 کے بعد نیویارک کے شہریوں نے اپنے غم و غصہ کو ریکارڈ کرانے کے لئے اس طرح کی سگنیچرکمپیئن شروع کی تھی۔ نیویارک کے شہریوں کے مطابق ان کی اسٹیٹ سے تو ہیلری کلنٹن انتہائی اچھے مارجن سے جیتی ہیں لیکن ملک کے دیگر علاقوں کے نتائج ان کے لئے اتنے ہی تکلیف دہ ہیں جتنا کہ 9/11 ہے۔ نیویارک کی شاہراہوں پر احتجاج کرتے یہ امریکی شہرییہی کہہ رہے ہیں کہ الیکٹورل کالج کے ووٹ ایک طرف لیکن ہیلری کو ملک کا سب سے زیادہ ووٹ پڑا ہے۔ اس لئے یہی ہماری موزوں صدر ہونی چاہئیں تھی۔ ان شہریوں کے مطابق اگر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں انہی خیالات کے ساتھ داخل ہو گئے جو الیکشن مہم کے دوران ان کی زبان پر ت ھے تو یہ امریکہ کے مستقبل کے لئے خطرناک ترین ہو گا۔
امریکہ کے صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے ؟
ہر ریاست میں ووٹنگ کے نتائج کی بنیاد پر جیتنے والے امیدوار کو مخصوص تعداد میں الیکٹریا نمائندے مختص کئے جاتے ہیں جو الیکٹرول کالج تشکیل دیتے ہیں اور پھر یہ عوامی ووٹوں کی قوت سے منتخب ہونے والا الیکٹورل کالج امریکہ کے صدر کا انتخاب کرتا ہے ۔ پرائمری انتخابات میں ریپلبکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی طرف سے نامزد صدارتی امیدوار اپنے لئے نائب صدر کے عہدے کے ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اگر یہ عوامی ووٹوں کو اہمیت حاصل ہے مگر صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہی ہوتا ہے ۔ زیادہ آبادی والی ریاستوں کے زیادہ الیکٹرول (نمائندے) ہوتے ہیں اور کم آبادی والوں کے کم‘ عام انتخابات کے ایک مہینے بعد یہ نمائندے اپنے ووٹ سے صدر جینتے ہیں اور جنوری میں صدر کی حلف برداری کی تقریب ہوتی ہے لیکن 8 نومبر کی رات کو آنے والے نتائج سے واضح ہو جاتا ہے کہ کس پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے۔

مزیدخبریں