پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کے انتقال پر سابق صدر آصف زرداری ،بلاول بھٹو زرداری ، بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری اور پارٹی کے کئی لیڈروں نے اظہار تعزیت کِیا اور اخلاقی تقاضوں کے مطابق خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ۔ شاید اِس لئے کہ پنجابی کے صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش نے کہا تھا ؎
’’ دُشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے
سجنّاں وی مرجانا !‘‘
موت کا بازار تو بہت گرم رہتا ہے ۔ جہانگیر بدر صاحب کو اپنے مقررہ وقت پر جانا تھا تو وہ چلے گئے۔
بلاول بھٹو زرداری کا سفر!
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’ مجھے جہانگیر بدر صاحب کے انتقال کا بہت صدمہ ہُوا ۔ مَیں نے سوچا نہیں تھا ’’اب مجھے جہانگیر بدر کے بغیر سفر کرنا پڑے گا ‘‘۔ جب کوئی سفرِ آخرت پر روانہ ہو جاتا ہے تو اُس کے چاہنے والوں کو زندگی کا سفر اکیلے کرنا پڑتا ہے لیکن سفرِ آخرت؟۔ زندگی کے عام سفر کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اگر جناب آصف علی زرداری جوشِ خطابت میں جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان نہ کرتے اور وہ دُبئی میں اپنے رنگ محل میں قیام نہ کرتے تو چیئرمین بلاول اور پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو اپنے قائد کی زیارت کے لئے بار بار دبئی کا سفر نہ کرنا پڑتا ۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اور دوسرے وزراء تو خیر سرکاری خرچ پر سفر کرتے ہیں لیکن پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو تو دبئی میں اپنے قیام و طعام کا خود انتظام کرنا پڑتا ہوگا ۔ شاید اِسی لئے سیانے ہر پارٹی لیڈر کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ ’’تقریریں غریبوں کے حق میں کرو لیکن پارٹی میں مالدار لوگوں کو شامل کرو!‘‘۔
جہانگیر بدر صاحب کے انتقال کا سب سے زیادہ صدمہ اُن کے برادرِ نسبتی اوگرہ کے معزول چیئرمین توقِیر صادق کو ہُوا ہوگا کیونکہ وہ قومی خزانے سے 82 ارب روپے ہڑپ کر کے سپریم کورٹ کے حُکم پر پکڑے جانے اور ضمانت پر رہا ہونے کے بعد وہ نہ جانے کہاں چھپے بیٹھے ہیں ؟ ۔مَیں نے 12 جولائی 2013ء کے ’’ سیاست نامہ‘‘ میں خدشتہ ظاہر کِیا تھا کہ ’’ توقیر صادق خود کشی نہ کر لے!‘‘ ۔ عجیب بات ہے کہ قومی خزانے سے 82 ارب روپے ہڑپ کرنے والے توقِیر صادق کو تلاش کرنے میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے؟ 15 نومبر کو جہانگیر بدر صاحب کے انتقال کی خبر عام ہُوئی اور اوگرہ کے چیئرمین کی طرف سے اعلان کِیا گیا ہے کہ ’’15 نومبر سے ہی گیس 36 فی صد مہنگی کرنے کا فیصلہ کر لِیا گیا ہے ‘‘۔
’’… ہاشمی جی ، نُون لِیگ میں؟‘‘
معروف صحافی جناب مجیب اُلرحمن شامی سے مخدوم جاوید ہاشمی کی دوستی آخر رنگ لائی۔ شامی صاحب شریف برادران کے بہت قریب بلکہ ’’ عن قریب‘‘ ہیں ۔ اُنہوں نے ایک بار پھر نُون لیگ میں ہاشمی صاحب کے داخلے کی راہ ہموار کردی ہے ۔ کئی دِن سے ہاشمی صاحب نُون لیگ میں شامل ہونے کے لئے ’’ پَر تول رہے ہیں ‘‘۔ لیکن مول تول تو دو طرفہ ہوتا ہے ۔ ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ ’’ مَیں بنیادی طور پر مسلم لیگی ہُوں اور مجھے مسلم لیگ میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔ مسلم لیگ سے ہاشمی صاحب کی مُراد ’’ مسلم لیگ نُون ‘‘ ہے ۔ چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) ہر گز نہیں ۔ چیئرمین عمران خان نے ہاشمی صاحب کو پاکستان تحریکِ انصاف کا صدر بنایا تھا اور ہاشمی صاحب 11 مئی 2011ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
5 جون 2013ء کو میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہُوئے تو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں میاں نواز شریف کو مبارک باد دیتے ہُوئے ہاشمی صاحب نے عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو حیران کردِیا تھا کہ ’’ اختلافات اپنی جگہ لیکن میاں نواز شریف اب بھی میرے لیڈر ہیں ‘‘۔ ہاشمی صاحب کو اِس سے نقصان یہ ہُوا تھا کہ چیئرمین عمران خان نے اُن کے بجائے شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مقرر کردِیا اور ہاشمی صاحب کو وزیراعظم کو اپنا لیڈر کہنے پر اپنا یہ بیان واپس لینے کی ہدایت کی۔
ہاشمی صاحب کو احساس ہُوا تو اُنہوں نے اپنا بیان بدل لیا اور کہا کہ ’’ میرے حلقے کے جو نوجوان میری انتخابی مہم کے دَوران میرے جلوس کے آگے ہوتے تھے ، اُنہوں نے میاں نواز شریف کے بارے میں میرا بیان قبول نہیں کِیا ۔ مجھ پر میرے خاندان کے لوگوں کا "Pressure" بھی تھا۔ مَیں اپنے لوگوں کے خلاف ’’ بغاوت‘‘ نہیں کرسکتا‘‘۔ اِس پر 11 جون 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’جاوید ہاشمی زرداری صاحب کے بیان بدل بھائی ‘‘ ۔ مَیں نے اپنے کالم میں جاوید ہاشمی صاحب کے ایک پرانے دوست ملتان کے ہی میاں عبداُلشکور کا یہ بیان شامل کرلیا تھا کہ ’’ میاں صاحب نے جاوید ہاشمی صاحب کے ’’ باغی ‘‘ ہونے کی وجہ تسمیہ یہ بتائی تھی کہ ’’ ہاشمی صاحب کو لڑکپن سے ہی باغوں میں گُھومنے پھرنے کا شوق تھا ۔ خاص طور پر ملتان کے قاسم باغ میں ۔ وہ گذشتہ کئی دنوں سے ( شاید وزیراعظم میاں نواز شریف کو یاد کر کے ) اُستاد بڑے غلام علی خان کا گایا ہُوا یہ ’’ اردو ماہِیا، گنگنایا کرتے تھے کہ ؎
’’ باغوں میں پڑے جُھولے
تُم ہمیں بُھول گئے
ہم ، تم کو نہیں بُھولے‘‘
میاں عبداُلشکور صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ جناب جاوید ہاشمی صاف سُتھرے سیاستدان ہیں ، منگل اور بُدھ کو گوشت کا ناغہ کرتے ہیں ، ملاقاتیوں سے اتنے خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے ہیں کہ چاروں طرف چراغاں دکھائی دیتا ہے ۔ ’’ میاں صاحب کے اِس بیان پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے جناب جاوید ہاشمی کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا تھا؎
’’ مَیں منگل بُدھ کا ناغیؔ ہُوں
اور لوڈ شیڈنگ میں چراغیؔ ہُوں
کیا لینا بغاوتؔ سے مجھ کو
مَیں باغ میں ہوں اور باغیؔ ہُوں‘‘
اب جناب جاوید ہاشمی دوبارہ نون لیگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو شاید رانا ثناء اللہ خان بھی اُنہیں نہیں روک سکتے ۔ ملتان اور فیصل آباد میں ایک قدر مشترک تو ہے کہ دونوں شہروںکا ’’ گھنٹہ گھر‘‘ بہت مشہور ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ’’نُون لیگ میں موجود ہاشمی صاحب کے بہت سے پرانے دوست اُن کا بھر پور استقبال کریں گے اور نئے لوگ بھی اور نُون لیگ بقول علامہ اقبالؒ …
’’ عروقِ مُردۂ خاکی میں خُونِ زندگی دوڑا‘‘
کی پوزیشن میں ہو جائے گی۔ نُون لیگ کو اپنی موجودہ مشکلات میں جاوید ہاشمی جیسے ’’ جہاں دیدہ اور باراں دیدہ‘‘ لیڈر کی بہت ضرورت ہے اور شاید اِس بار ہاشمی صاحب کو نُون لیگ میں اب اپنا قانون چلانے کا موقع مِل جائے اور شاید شریف برادران کی نظروں میں جناب مجیب اُلرحمن شامی کے ’’درجات بھی بلند‘‘ ہو جائیں ۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ہاشمی صاحب کی حمایت میں کہا ہے کہ؎
’’ شاید چلائیں اپنا ہی قانون لِیگ میں
ڈالیں گے مَشک بھر کے ، نیا خُون لِیگ میں
ہے منتظر ، ہر مرد اور خاتُون لِیگ میں
پھر ہاشمی جی آ رہے ہیں نُون لِیگ میں ‘‘
میری طرف سے اور میرے لاکھوں ساتھیوں کی طرف سے مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کو نُون لیگ میں نیا دور پیشگی مبارک ہو!۔