9 نومبر 2017ء کو حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا 140 واں یوم ولادت ملک بھرمیں عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ اگر چہ مزار اقبال لاہورپر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی اورپاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے گارڈز کے فرائض سنبھالے جو کہ نہ صرف لاہور بلکہ ملک کی واحد سرکاری تقریب تھی جو کہ تقریب علامہ ڈاکٹر اقبال کو عقیدت پیش کرنے کے لئے تھی علاوہ ازیں سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفرا لحق نے ’’یوم اقبال‘‘ پر قرار دادپیش کی جس پر پیپلز پارٹی کے تاج حیدر‘ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی‘ اعظم سواتی‘ مشاہد حسین سید‘ سینیٹر سحر کامران‘ سینیٹر حافظ حمداللہ‘ سسی پلیجو‘ کریم خواجہ اورجاوید عباسی نے علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا‘ نظریہ پاکستان‘ علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ تعلیمات اقبال پر عمل کرکے پاکستان کو بحرانوںسے نکالا جاسکتا ہے۔ لاہور میں دوسری بڑی لیکن غیر سرکاری تقریب ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے تحت منعقد ہوئی جس میں وائس چیئرمین نظریہ ٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹررفیق احمد‘ علامہ محمد اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال‘ پیر سید منور حسین شاہ‘ پروفیسر عطاء الرحمن و دیگر رہنمائوںنے علامہ اقبال کے انقلابی افکار‘ فلسفہ خودی بیان کرتے ہوئے نئی نسل کو پیغام دیا کہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے کلام اقبال کا مطالعہ کرے۔ اس سے ایک روز قبل سرکاری تعطیل کے لئے وزارت داخلہ نے سمری تیار کرکے منظوری کے لئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو ارسال کی تھی‘ جسے انہوں نے زیر نظر علامہ اقبال کا شعر تحریر کرتے ہوئے مسترد کردیا۔
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کیلئے جہاں میں فراغ
اگرچہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے شعر کی صورت میں انکار کیا۔ قومی لیڈر اور محب وطن کا ذوق اپنی جگہ تاہم شعر کی تصیحح کر لیں ،’ شعر کا آخری حرف فراق نہیں فراغ ہے‘
سمری میں علامہ محمد اقبال کی عزت و مرتبہ اور دو قومی نظریہ کو اجاگر کرنے کے کردارپرروشنی ڈالتے ہوئے عام تعطیل کی استدعا کی گئی تھی۔ ’’یوم اقبال‘‘ پر تعطیل مسترد کرنے کے حوالے سے کچھ کہنے سے قبل یہاںپر ایک پوسٹ کا تذکرہ بے جانہ ہوگا۔
ائیر پورٹ پر ایک شخص سگریٹ نوشی کررہا تھا جن کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا آیا اوران سے پوچھا ’’جناب…’’آپ کتنے عرصہ سے سگریٹ پی رہے ہیں‘‘۔ ان کا اگلا سوال تھا کہ روزانہ کتنے سگریٹ ؟ تو انہوں نے جواب دیا تقریباً دوپیکٹ روزانہ‘ جس پر نوجوان نے انہیں احساس دلایا کہ اگر آپ سگریٹ نوشی کی لت میں نہ پڑتے تو یقیناً آپ سامنے والے جہاز کے مالک ہوسکتے تھے۔ آپ کو احساس ہونا چاہئے کہ آپ کس قدر مالی خسارے میں ہیں‘ ان بزرگ کو نوجوان کی بات سن کرتعجب ہوا اور ان سے الٹاپوچھا ، نوجوان ’’آپ یقیناً سگریٹ نوشی پسند نہیں کرتے‘ اس لئے پیتے بھی نہیں ہوںگے‘ یہ بتائیں کہ آپ نے آج تک کیا بچت کی ہے‘‘… نوجوان کوئی مناسب جواب نہ دے سکا کہ وہ ایک ادنیٰ دفتر میں ملازمت کرتا تھا‘ تب انہوں نے بتایا کہ جس جہازکا ذکر کررہے ہیں وہ اس کے مالک ہیں۔ یہاں پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے نہ صرف شعر تحریر کرکے یوم اقبال پر عام تعطیل کی سمری کومسترد کیا بلکہ اپنے ذوق کمال اوراعلیٰ ادبی تعلیمات کے پیش نظر (غلط شعر کہہ کر) پوری قوم کویہ باورکروانے کی کوشش کی ہے کہ یہ تعطیلات اپنے محسنات ، بانیان مملکت خدا داد اور عظیم رہنمائوں کی یاد میں ہونے والی چھٹیاں کسی ترقی یافتہ قوم و ملت کے لئے نہیں بلکہ وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے والی اقوام کے لئے ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ترقی یافتہ قومیں اپنے محسنوں اورقائدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تعطیل نہیں کرتیں؟ ملک وقوم کی ترقی کے لئے فقط محنت اور کام ہی ضروری نہیں بلکہ ایمانداری، فرض شناسی‘ میرٹ‘ محب وطن لیڈر اور بے لوث سیاست اور ‘ بیورو کریسی بھی ضروری ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عوام کی خدمت کا نعرہ لگانے والے‘ قوم کے لئے روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا لالچ دے کروزارتوں کی نشستوں پر براجمان ہونے والے اور بڑے بڑے دعوے کرنے والے لیڈرز آج عدالتوں تک کیسے پہنچے ہیں‘ راتوں رات کروڑوں اربوں پتی بننے والے آج کیونکر احتساب کا سامناکررہے ہیں۔ آج ملک کو درجنوں چیلنجز کے ذمہ دار کون ہیں ؟ ایک آزاد ارض وطن کے باشندے‘ یہ قوم آج تک فقط ترقی کے خواب دیکھ سکی ہے‘ علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر کی منتظر ہے۔ جس کی یقیناً وجہ یہ تعطیلات نہیں اس پاکستان کی غلامی نما قسمت بنانے والا وہ طبقہ ہے جس نے بے رحمی سے اس مملکت کو لوٹا‘ اس قوم کو لوٹا اور اپنے مفادات کی خاطر اس ملک و قوم کو نقصان پہنچایا۔ وہ وقت دورنہیں کہ اس کام کی آڑ میں یہ حکمران اس قوم کو اپنے محسن‘ قومی نظریہ کے پاسبانوں اوربانیان کو بھلادیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیڈرز‘ حکمران بانیا ن پاکستان قائد و اقبال سے وابستہ یادیں بھی ملیا میٹ کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کو شعر تحریر کرتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہئے تھا کہ ہمارے ملک میں آج بھی سرکاری طورپرہفتے میں (ہفتہ‘ اتوار) دو چھٹیاں منائی جاتی ہیں‘ مگر ’’یوم اقبال‘‘ پرسرکاری تعطیل انہیں گوارا نہیں۔
حکمران اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتے کہ ان کا اقتدار دولت اور جاہ جلال اس مملکت خداداد پاکستان کا مرہون منت ہے جس کے قیام کے لئے بانیان پاکستان اور کارکنان تحریک پاکستان نے جان توڑجدوجہد کی اور لازوال قربانیاں دیں۔ یوم اقبال کی سرکاری تعطیل ختم کرنے کا فیصلہ جس نے بھی کیا اس نے علامہ اقبال سے اپنی کدورت بغض اور کینہ ہی کا ثبوت دیا۔