علامہ اقبال اور مقتدرہ قوتیں

Nov 15, 2017

عبدالواحد باجوہ میرے بہت اچھے دوست تھے۔ ٹریفک کے ایک حادثہ میں اگست 2016 ان کا انتقال ہو گیا۔ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرتے تھے دوران ملازمت ان کا تبادلہ عراق میں ہوا۔ وہاں غوث پاک کے مزار پر حاضری ان کا معمول تھا۔ بغداد شریف ملازمت کے آخری ایام میں ان کی حضور عبدالقادر جیلانی سے بنفس نفیس ملاقات ہوئی۔ اور انہوں نے اپنے مزار پر بچھی ایک چادر انہیں تحفہ میں دی۔ اسی طرح حضرت علی کے مزار پر بھی باقاعدگی سے جاتے۔ ان سے بھی ملاقات میں انگوٹھی کا ایک تحفہ ملا۔ )یہ دونوں تحائف باجوہ صاحب کے بیٹے شاہد باجوہ کے پاس محفوظ ہیں( دنیاوی ڈیوٹی اور دنیاوی ڈیوٹی مکمل کے نام سے میں نے باجوہ صاحب پر دو کالم بھی لکھے۔ کسی ڈھابہ ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پینا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ ایک دن بتانے لگے کے 70 کی دہائی میں اسلام آباد تبادلہ ہو گیا تو دفتر کے بعد وقت گزارنے کے لیے آبپارہ مارکیٹ کیرم بورڈ کھیلنا اور چائے پینا ہمارا معمول بن گیا۔ جب ہم چار سے زیادہ لوگ ہو جاتے تو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑنا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ممبران کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ رات گئے تک باری نہ آتی۔ ہمارے ساتھیوں میں ایک سیکشن آفیسر بھی تھے جو ملازمت کا آخری سال گذار رہے تھے۔ باری نہ ملنے پر وہ

اور میں چائے پی کر واک کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑتے۔ وہ بڑے دیانتدار آفیسر ہمیشہ ساتھیوں کو دفتر وقت پر آنے اور بددیانتی سے باز رہنے کی تلقین کرتے۔ سادگی کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ پنج وقتی نمازی اور تہجد گزار تھے۔ آبپارہ سے واپسی پر ایک دن کہنے لگے باجوہ صاحب آج میرے گھر چل کر چائے پیتے ہیں۔ کمرے میں بٹھایا۔ جب چائے کا پیغام دے کر واپس آئے تو میں نے ان سے کہا کہ آج کوئی خاص بات سنائیں۔ کچھ لمحے سوچا اور پھرکہنے لگے کہ جس کمرے میں آپ بیٹھے ہیں میں تہجد یہی پڑھتا ہوں۔ چند ماہ قبل تہجد کے وقت سے کوئی گھنٹہ بھر قبل دروازہ کھٹکا۔ میں پریشان کہ نہ جانے اس وقت کون ہو گا۔ خاموش رہا کہ شاید میرا وہم ہو۔ کچھ دیر بعد پھر دروازہ کھٹکا۔ میں نے پوچھا کون؟ جواب ملا۔ اقبال میں نے پھر پوچھا کون اقبال، کہنے لگے علامہ اقبال میں نے تذبذب میں دروازہ کھولا۔ شدید سردی میں مخصوص لمبا کوٹ ، اونی ٹوپی پہنے چھڑی سمیت کھڑے تھے۔ میں نے اندر آنے کا کہا تو ایسی کرسی پر بیٹھ گئے جہاں آپ بیٹھے ہیں۔ رسمی سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ میں آپ کے پاس آیا نہیں بلکہ بھیجا گیا ہوں۔ ہمارے پیارے حبیبؐ کی کچہری کچھ ہی دیر پہلے ختم ہوئی۔ آپ ہمیشہ وقت پر آنے اور بددیانتی نہ کرنے کا ساتھیوں کو مشورہ دیتے ہیں۔ یہ دونوں عمل ہمارے آقا کو بہت پسند ہیں آپ کے لیے پیغام یہ ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اس پیغام کو سب کے پاس پہنچاتے رہیں۔ اٹھے، بغلگیر ہوئے اور چلے گئے۔ چند سیکنڈ میں خیال آیا کہ گلی میں دیکھوں تو سہی مگ پھر کس نے نظر آنا تھا۔ باجوہ صاحب نے واقعہ مکمل کیا ہی تھا کہ میرے چہرے پر لکھے سوال کو سمجھ گئے کہنے لگے اس کے بعد وہ سیکشن آفیسر پھر کبھی نہ نظر آئے۔ باجوہ صاحب بھی علامہ اقبال کی روحانیت کے بے حد قائل تھے اور انہیں ’’بابا‘‘ سمجھتے تھے۔ باجوہ صاحب کی وفات کے کوئی سوا سال بعد چند دن قبل جب میں نے علامہ اقبال پر کالم لکھنے کا سوچا یہ تو یہ واقعہ بہت یاد آیا اور ساتھ ہی میں نے علامہ صاحب کی زندگی پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا سکے۔
مقامی روزنامہ 20 اگست 1992ء ’’قیام پاکستان کی گولڈن جوبلی منانے والوں کے نام اس صدی کا پیغام‘‘ میں جناب اصغر علی نے اپنے مضمون میں لکھتے ہوئے ایک خواب کا ذکر کیا۔ فرماتے ہیں کہ مشتاق قادری قلندری میرے انتہائی مشفق و محترم بزرگ ہیں ایک دن میں ان کے ہمراہ جا رہا تھا ۔ قیام پاکستان سے متعلق وہ اپنے مشاہدات سے آگاہ کر رہے تھے کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال آیا۔ کہنے لگے اس ڈاکٹر کے والد ایک مولوی صاحب تھے وہ ریاست کپور تھلہ میں رہتے اور میرے دوست بھی تھے۔ کہنے لگے کہ جس گائوں میں رہتا تھا وہاں ایک برہنہ، مست درویش بھی رہتا تھا۔ شریعت کے تقاضوں کے مطابق اس کے ننگا پھرنے پر مجھے نفرت تھی اور میں اسے ناپسندکرتا تھا۔ 1937-8 میں ایک رات میں ذکر و اذکار کے بعد سویا تو حضرت نبی کریمؐ کی زیارت بابرکت سے مشرف ہوا۔ آپ ایک حویلی کے اند
تشریف لے گئے جہاں بہت لوگ جمع تھے۔ میرے دل میں خواہش ہوئی کہ میں بھی اس محفل میں شرکت کی سعادت حاصل کروں۔ آگے بڑھا تو وہی درویش ایک لنگوٹ میں کھڑا تھا۔ اس نے مجھے اندر جانے سے روک دیا۔ اتنے میں ایک آواز آئی کہ اسے اندر آنے دو میں اندر داخل ہوا اور محفل کے عقب میں بیٹھ گیا۔ حضور کریمؐ نے محفل میں بیٹھے علامہ اقبال کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ’’اقبال تمہارے ذمہ میں نے ایک کام لگایا تھا‘‘ اقبال نے نہایت عجزو انکساری کے ساتھ اپنے ساتھ کھڑے ایک دبلے پتلے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا۔ یارسول اللہؐ میں نے اس کام کی ذمہ داری محمد علی کو سونپ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ اگلے دن میں نے اس درویش کو بہت ڈھونڈا مگر وہ بھی نہ مل سکا۔
1920 کے ابتدائی ایام میں علامہ اقبال کو ایک گمنام خط ملا، جس میں تحریر تھا کہ حضور کریمؐ کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھو تو تمہیںاس کا علم بھی ہو جائے گا۔ علامہ نے یہ سوچتے کہ راقم نے اپنا نام تک نہیں لکھا۔ نذر انداز کر دیا اور خط ضائع ہو گیا۔ اس واقعہ کے تین چار ماہ بعد کشمیر سے ایک پیرزادہ 30/35 سال عمر والے ملنے آئے اور اقبال کو دیکھتے ہی رونے لگ پڑے۔ علامہ اقبال نے یہ سمجھے کہ شاید یہ کسی پریشانی میں ہے اور کسی مدد کے لیے میرے پاس آیا ہے شفقت آمیز لہجے میں استفسار کیا۔ وہ ضبط کرتے ہوئے کہنے لگا نہ تو میں مجبور ہوں نہ بدحال، عالم کشف میں میں نے حضرت محمدؐ کا دبار دیکھا۔ جب نماز کے لیے صف کھڑی ہوئی تو آپ جنابؐ نے دریافت فرمایا کہ اقبال آیا یا نہیں؟ آپ کو نہ دیکھ کر ایک شخص بغیر داڑھی، رنگ گورا اور مضبوط جسم بندے کو لا کر حضور کے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ اس سے قبل میں نے آپ کو کبھی نہ دیکھا تھا۔ کشمیر کے ایک بزرگ مولانا نجم الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اگرچہ انہوں نے بھی آپ کو نہ دیکھا تھا۔ مگر آپ کی تحریروں کے ذریعہ آپ کو جانتے تھے نے آپ کا بتایا۔ چنانچہ آپ سے ملنے کے شوق میں کشمیر سے یہاں چلا آیا۔ اس کشمیری کے جانے ے بعد آپ کو وہ خط بہت یاد آیا اور پھر والد سے راہنمائی اور معاونت حاصل کی )روزگارِ فقیر جلد دوم۔ مرتبہ فقیر سید وحید الدین(اس کے علاوہ بھی ڈھیر سارے ایسے واقعات موجود ہیں مگر بیک وقت کالم میں سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے۔ سیاسی حالات نے شدید بے چینی اور اضطراب پیدا کر رکھا ہے گو ماضی میں فوجی حکومتیں بھی اتنی کامیاب اور مثالی نہیں رہیں۔ مگر موجودہ وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اقتصادی طور پر ہم بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ قرضوں کی قسطیں اتارنے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑے گا۔ ضرورت اس وقت اداروں کو مضبوط کرنے اور کڑھے احتساب کی ہے۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جس بات کی ہے وہ نیک نیتی ہے اگر نیک نیتی سے سارے اہداف محدود وقت میں حاصل کیے جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ ہم ملک اور قوم کو اس مشکل وقت سے نہ نکال سکیں۔ لیکن 9 نومبر کے حوالے سے میرا زور اس بات پر ہو گا کہ ہم اقبال اور اس کی تعلیمات کو بھول چکے ہیں۔ ہمیں کسی ’’بابے‘‘ کی طرف جانے کی اور دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان بنانے میں اُن کا اہم کردار سب سے بڑے ’’بابے‘‘ کی حیثیت سے ہمارے سامنے موجود ہے۔ اُن کی تعلیمات پر عمل کریں اور اُن کو مناسب عزت دیں کہ یہی پیغام ہماری مقتدرہ قوتوں کے لیے ہے!

مزیدخبریں