معیار تعلیم بلند کرنے کیلئے ہمیشہ سے ہی اساتذہ کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ہے ۔ان کو پیڈاایکٹ کے تحت برطرف کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ داخلوں کیلئے انرولمنٹ ٹارگٹ دئیے جاتے ہیں۔گھر گھر جاکر بچوں کے کوائف اکٹھے کرنے اور بعد میں ان کی عمر تین سال ہونے پر گھر سے لاکر سکولوں میں داخل کرنے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ سکول میں پہلے سے موجود طلباء کا رزلٹ بھی سو فیصد ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ کی رخصت اتفاقیہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ اگر کوئی استاد دو چار منٹ لیٹ ہو جائے تو اس کی جواب طلبی آجاتی ہے اور جرمانے کی آڑ میں اس کی کچھ دن کی تنخواہ منہا کر لی جاتی ہے بچے سکول میں حاضر نہ ہوں تو اساتذہ کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے ۔ کسی بچے کے والدین اسے کام پر لگا دیں تو اسے بھی استاد کا قصور قرار دیا جاتا ہے۔ترقی پسند معاشروں میں ایسے عجیب و غریب اصول و ضوابط نہیں چلا کرتے۔ وہ اپنے ماحول کے مطابق تمام سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ پہلے تمام عوامل کو مدنظر رکھ کرمکمل سروے کیا جاتا ہے اسکے بعد فزیبلٹی رپورٹ مرتب کی جاتی ہے جس کی بنا پر تعلیمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔بچوں کو سکول بھیجنا والدین کی ذمہ داری قرار دی جاتی ہے۔ داخلے کے سروے اور غیر حاضر بچوں کو سکول لانا بھی اساتذہ کی ذمہ داری نہیں ہوتی اساتذہ کا کام سکول میں موجود بچوں کو توجہ سے پڑھانا ہوتا ہے۔ ان کی عادات و اطوار کو سنوار کر انہیں معاشرے کے کارآمد افراد بنانا ہوتا ہے جو ناصرف اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں بلکہ اپنے ملک کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکیں۔ سکول میں موجود بچوں کا ڈیٹا متعلقہ حکام تک پہنچانا اور ان کی ڈاک کا جواب دینا کلرک کی ذمہ داری ہوتی ہے جس کی نگرانی ہیڈماسٹر کرتا ہے ۔ اساتذہ کی ترقی اور سنیارٹی کے معاملات فول پروف ہوتے ہیں اور مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہوتے ہیں انہیں فائلیں لیکر دفاتر میں کلرکوں کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں اور نہ ہی نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں ۔
ترقی پسند معاشرے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں ۔ چین میں اساتذہ کو ایک ڈاکٹر جتنی عزت ملتی ہے اسکی ماہانہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر ماہانہ تک بنتی ہے۔ برطانیہ میں استاد کو ایک سماجی کارکن کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسکی ماہانہ تنخواہ چھتیس سو ڈالر تک ہوتی ہے۔ جرمنی میں اساتذہ کو بلند ترین مقام دیا جاتا ہے اور انکی تنخواہ تمام سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ تنخواہوں کے معاملے میں دیکھا جائے تو لکسمبرگ میں اساتذہ کی تنخواہ ساڑھے نو لاکھ پاکستانی روپے ماہانہ بنتی ہے۔ آسٹریلیا میں چار لاکھ روپے سے زیادہ ‘ نیوزی لینڈ میں ساڑھے تین لاکھ روپے‘ آئرلینڈ میں پانچ لاکھ پچیس ہزار روپے اور ترکی میں دو لاکھ تیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ تنخواہو ں کی یہ سطح دیکھنے کے بعد اگر پاکستانی اساتذہ کی تنخواہوں کا جائزہ لیا جائے تو ہنسی کے ساتھ ساتھ شرم بھی آنے لگے گی۔سب سے بری بات استاد کو ملازم سمجھنا ہے اور اسکے ساتھ ملازموں والا سلوک کرنا ہے۔ اساتذہ کے سکیل عام ملازمین سے الگ ہونے چاہئیں انکی تنخواہ اور سہولیات بھی الگ ہونی چاہئیں اسکا اور اسکی فیملی کا علاج بالکل مفت ہونا چاہئے اسکو صرف درس و تدریس تک محدود کرنا چاہئے۔ ایکسٹرا ڈیوٹیز کیلئے الگ عملہ ہونا چاہئے۔ بچوں کوسکولوں تک پہنچانے اور لے جانے کی ڈیوٹی والدین کی ہونی چاہئے۔ سکول نہ بھیجنے پر والدین سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ پرائمری سکولوں میں بھی کلرک‘ سویپر‘ نائب قاصد اور سکیورٹی گارڈز ہونے چاہئیں۔ جن سکولوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو وہاں اساتذہ کی تعیناتی کیلئے نئی بھرتیوں کا انتظار کئے بغیر اساتذہ بھیجے جانے چاہئیں۔اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائی جانی چاہئیںاسکے بعد ہی اساتذہ کی عزت بڑھے گی کیونکہ ہمارے ہاں عزت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔ ہم خواب تو یورپ اور امریکہ جیسی خواندگی کے دیکھتے ہیں جبکہ استاد کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس پہ بے جا پابندیاں لگا کر اور انہیں دھمکیاں دیکر آپ معیار تعلیم کو کسی طور پربھی بلند نہیں کر سکتے۔ ان کے مسائل حل کریں ان کا معیار زندگی بلند کریں انہیں احترام دیں ‘ پھر رزلٹ لیں۔ جن کو آپ کام چور سمجھتے ہیں تو ان سے مذاکرات کر کے ملازمت سے فارغ کر دیں انکی جگہ نئے توانا اساتذہ کو بھرتی کر لیں۔