قربانیوں اور امریکی مفادات کے تحفظ کے باوجود الزامات اور بداعتمادی پر پاکستان کا شکوہ بلا جواز نہیں

Nov 15, 2017

اداریہ

افغان سرحد پار سے حملے میں دو فوجی شہید، نائن الیون کے بعد دہشت گرد پاکستان دھکیل دیئے گئے، وزیر خارجہ کا گلہ

وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا)کی ایجنسی باجوڑ میں پاک افغان سرحد کے قریب قائم چیک پوسٹ پر افغان دہشت گروں کے حملے میں پاک فوج کا کیپٹن اور سپاہی شہید جبکہ 4 زخمی ہوگئے۔ تاہم پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے 8 سے 10 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغان حکومت کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان افغان سرحد کے پار سکیورٹی نہ ہونے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کیا اور تمام علاقہ کلیئر کرا لیا۔ افغانستان بھی اپنی ذمہ داری نبھائے، پاک افغان سرحد پر موثر سکیورٹی یقینی بنانا ہو گی۔ 

نائن الیون سے قبل پاک افغان سرحد دفاعی نقطہ نظر سے محفوظ تھی۔ پاکستان کو اس بارڈر پر فوج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سرحد کو ان سپوتوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا تھا جنہوں نے آزاد کشمیر کو بھارت کے چنگل سے چھڑانے کیلئے قربانیاں دیں۔ انہیں بانیٔ پاکستان نے پاکستان کا بازو ئے شمشیرزن قرار دیا تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کی خدمات اور قربانیوں سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور وہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا، یہ امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ تھی جس میں مجاہدین نے پاکستان کے ایما پر گرم کردار ادا کیا۔ امریکہ اس وار میں سرخرو ہوا مگر افغانستان میں خونریری کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے حالات بھیانک سے بھیانک ترہوتے چلے گئے۔ نائن الیون کے ڈانڈے بھی انہیں حالات سے کہیں نہ کہیں جا ملتے ہیں۔ مجاہدین کے سر پر امریکہ اور پاکستان کی سرپرستی نہ رہی تو کئی گروپ بے مہار ہو کر دہشت گرد ی کی راہ پر بھی چل نکلے۔ وہ خطے کے امن کیلئے ایک بڑا خطرہ بن گئے۔ ان کے خلاف امریکہ آج تک نبرد آزما ہے۔ اس میں پاکستان نے امریکہ کا اپنی استعداد سے بڑھ کر ساتھ دیا، جس کا امریکہ نے کئی بار اعتراف کیا اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت،تنصیبات و سہولیات کی فراہمی کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈ سے متواتر ایک رقم معاوضے کے طور پر دی جاتی رہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کا کردار ہر اول دستے سے کم نہیں رہا، امریکہ نے اسی لئے پاکستان کو اپنا فرنٹ اتحادی قرار دیا۔ پاکستان وہ ملک ہے جسے نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی دیا گیا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کی الگ داستان ہے۔ اس جنگ میں کردار ادا کرنے کے باعث خود پاکستان بری طرح اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد جاری ہے۔ ابھی دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہوئی ہے، نہ پاکستان دہشت گردی سے مکمل طور پر نجات حاصل کر سکا ہے، یہ جنگ جیتنے کیلئے اتحادیوں کے مابین پہلے کی طرح اتحاد و اعتماد کی ضرورت ہے مگر امریکہ کی طرف سے اعتماد کا فقدان بڑھتے بڑھتے اس سطح پر آ گیا کہ امریکہ الزامات کے ساتھ ساتھ جارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کے پاکستان اور امریکہ کے اتحاداور اعتماد پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کا فائدہ دہشتگردوں کو ہوگا جو انسانیت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور امریکہ کے بھی دشمن ہیں۔ ان حالات میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کا جنیوا میں انسانی حقوق کونسل سے خطاب میں شکوہ بجا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں اور کامیابیاں سب سے زیادہ ہیں۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردوں کو پاکستانی سر زمین پر دھکیل دیا گیا پاکستان میں انتہا پسندی کا عنصر سرد جنگ کی خود غرضانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
بقول خواجہ آصف پاکستانی معاشرے کی اصل شکل میں بحالی کیلئے امریکہ جیسے دوستوں کی ضرورت بہرحال ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے امریکہ سمیت کسی بھی ملک کیلئے لڑتے ہوئے سرخرو ہونا ممکن نہیں۔ امریکہ کے ڈومور کے تقاضوں کو پاکستان نے کبھی یکسر مسترد نہیں کیا مگر منطقی حد تک ہی تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان امریکہ نے جب بھی انٹیلی جنس شیئرنگ معاہدے کے تحت سرحد کے آر پار کارروائیاں کیں ان میں کامیابی حاصل ہوئی جس کی حالیہ مثالیں پاک فوج کے آپریشن میں امریکی خاتون اور اس کے خاندان کی بازیابی اور خالد خراسانی کی امریکی حملوں میں سرحد پار ہلاکت ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کو فون کرکے دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کی تحسین کی مگر پھر بھارتی لابنگ کے زیر اثر پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے جارحیت سے گریز نہ کرنے کی بھی دھمکی دیدی۔اس کے بعد جان مکین کے دورہ پاکستان اور افغانستان کے موقع پر پاکستان پر الزامات کی بارش شروع ہو گئی جس میں افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر اور وزیر دفاع جم میٹس کے بیانات بھی شامل ہو گئے اور جلتی پر تیل کا کام وزیر خارجہ ٹلرسن کے افغانستان اور بھارت میں دیئے گئے سخت بیانات الزامات اور دھمکیوں نے کیا۔ ان دھمکیوں کی بازگشت ہنوز سنائی دے رہی ہے۔ اس پر پاکستان کی طرف سے گلہ و شکوہ کا جواز تو بنتا ہے تاہم امریکی سفیر ڈیوڈ بیل پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات معمول پر لانے کیلئے کوشاں ہیں جس میں کامیابی کا امکان موجود ہے۔
پاکستان کا امریکہ سے اس لئے بھی گلہ بنتا ہے کہ پاکستان نے شروع سے امریکہ کے ساتھ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ دوستی نبھائی اور اس کے مفادات کو اہمیت دی ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان نے روسی کیمپ سے دوری اختیار کرکے امریکہ کے ساتھ روابط اور تعلقات استوار کئے جبکہ بھارت روسی کیمپ کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ سوویت یونین کی توسیع پسندانہ پالیسی میں بھارت اس کا حامی و ساتھی رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور میںپاکستان نے سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شامل ہو کر سوویت یونین کے مشرق وسطیٰ اور برصغیر کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اور اشتراکیت کے پھیلائو کو روکنے کیلئے امریکہ کے ساتھ قدم سے قدم ملایا یہ وہ دن تھے جب کہ بھارت کے سوویت یونین کے ساتھ گہرے تعلقات تھے اور اس نے سوویت یونین کے عزائم کو آگے بڑھانے کیلئے ہی غیر جانبدار ملکوں کی تنظیم بنائی اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سامراجی ایجنٹ اور ترقی کا دشمن قرار دیتا رہا۔ سوویت یونین ٹوٹا تو بھارت امریکہ کے ساتھ جُڑ گیا اور اس نے کہنیاں مار کر پاکستان کو پیچھے دھکیل دیا۔ پاکستان کو اس لئے بھی امریکہ سے شکایت ہے کہ وہ اسی بھارت کو خطے میں لیڈر بنانا چاہتا ہے۔ بھارت نے روس کی قیمت پر امریکہ سے تعلقات بنائے جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی متوازن رہی ہے۔ اس کے چین اور امریکہ کے ساتھ یکساں اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ایک کی قیمت پر دوسرے سے تعلقات میں استواری سے گریز نمایاں ہے۔
امریکہ و چین کے تعلقات چین کی آزادی کی کئی ابتدائی دہائیوں میں سرد مہری کا شکار رہے۔ امریکہ کی خواہش پر پاکستان نے امریکہ اور چین کو قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ فروری 1972ء میں صدر نکسن نے چین کا دورہ کیا یہ کسی بھی امریکی صدر کا پہلا دورہ تھا جس میں پاکستان کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ پاکستان کو جہاں71ء کی جنگ میں امریکی بحری بیڑے کے نہ پہنچنے کا گلہ ہے وہیں صدر نکسن کا وزیراعظم اندرا گاندھی کو مغربی پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رہنے کی سخت وارننگ کا بھی احساس ہے۔ افغانستان میں روس امریکہ کولڈ وار میں پاکستان کے کردار کا تذکرہ ہو چکا، نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے شانہ بشانہ رہا ہے پھر بھی امریکہ کی طرف سے الزامات عائد کئے جائیں اور دھمکیاں دی جائیں تو یہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
افغانستان میں بلاشبہ امریکہ کے اثر و رسوخ اور پالیسی سازی کے کردار میں دورائے نہیں ہیں۔ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغان سرزمین استعمال کرتا ہے یہ الزام برائے الزام نہیں ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ افغان بارڈر آج اتنا غیر محفوظ ہو چکا ہے کہ وہاں پاکستان کو فوج کا ایک بڑا حصہ تعینات کرنا پڑا ہے۔ یہ سب نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث ہی ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی طرف سے ہی کہا گیا تھا کہ سرحد پر دونوں طرف دہشت گرد موجود ہیں، پاکستان ان کے خلاف کارروائی کر رہا ہے ایسی ہی دوسری طرف بھی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ باجوڑ چیک پوسٹ پر حملے کا الزام پاکستان نے افغان انتظامیہ پر نہیں لگایا اسے دہشت گردوں کی کارروائی قرار دیا جن پر کسی کا کنٹرول نہیں، سو ایسے دہشت گردوں کے ساتھ پاکستان امریکہ اور افغانستان کو باہم مل کر اور ایک دوسرے کی معاونت کرکے نمٹنا ہوگا۔

مزیدخبریں