کچھ یادیں اور نسلِ نو

میری سیاسی یادوں کا آغاز فیلڈ مارشل ایوب خاں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے منظر سے ہوتا ہے جب وہ بذریعہ ٹرین لاہور سے راولپنڈی کے سفر میں تھے اور وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر ان کا پرتپاک استقبال ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سارا تپاک مقامی انتظامیہ کے زیراہتمام تھا اور میرے والد کی ڈیوٹی بھی اسی ’’تپاک‘‘ کا حصہ تھی۔ مگر اس زمانے میں انتظامیہ حکمرانوں کی محافظ تو ہوتی تھی زرخرید غلام نہیں ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ میرے والد کے ایک کولیگ مجھے اپنے کندھے پر بٹھا کر ایوب خاں کے سیلون تک باآسانی لے گئے وہ سرما کی ایک خوبصورت دوپہر تھی اور ایوب خاں اپنی سرخ و سپید رنگت سمیت سیلون کی کھڑکی میں چمک دھمک رہے تھے۔ اس کے بعد جو ایوب خاں کے خلاف تحریک چلی تو وزیرآباد غلہ مندی میں احتجاجی جلسہ ہوا جس کی صدارت جماعتِ اسلامی کے نوجوان امیر نے کی اور اس جلسے کی خاص بات حبیب جالب کی شرکت اور ایوبی آمریت کے خلاف ان کی نظمیں تھیں۔ میں مولانا عبدالغفور ہزاروی کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد غلہ منڈی پہنچا اور پنڈال کے وسط میں بیٹھ گیا۔ جلسہ شروع ہوا تو کچھ ہی دیر بعد حبیب جالب کی آمد کا غلغلہ ہوا۔ وہ ایک لمبے برائون اورکوٹ میں ملبوس تھے ان کی آمد پر ان پر چاقوزنی کے سرکاری الزام کے حوالے سے ایک دو لوگوں نے باآواز جملے بازی بھی کی مگر جب حبیب جالب نے اپنے خوبصورت ترنم سے ’’تیس روپے کا من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا‘‘ اور ’’بچوں پہ چلی گولی‘‘ جیسی نظمیں سنائیں تو پورا مجمع ان کا ہمنوا ہو گیا۔ اس کے بعد اگلا جلسہ شورش کاشمیری کا تھا جو رات کو شروع ہوا اور مجھے یاد ہے کہ شورش مرحوم نے جب نئے نوبیاہتا افراد کو گھر چلے جانے کی ہدایت کی تو مجمع کشت زعفراں بن گیا اس کے بعد میں گھروالوں کو بتائے بغیر جلسے سنا کرتا تھا اور جب واپس آتا تو میرے روشن خیال والد محترم مجھے تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ہدایت کے ساتھ عفوو درگزر کا مظاہرہ کرتے کہ وہ خود ایک سیاسی ورکر تھے اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن کہلائے جانے پر فخرکیا کرتے تھے۔

غلہ منڈی وزیرآباد سیاسی و مذہبی جلسوں کا ایک مقبول پڑائو تھا اور اس کو اس دور میں اس چھوٹے سے قصبے کا موچی دروازہ بھی کہا جاتا تھا مگر ستر کی دہائی تک آتے آتے جلسوں کا مقام تبدیل ہو گیا اور پیپلزپارٹی والوں نے اپنے جلسے چوک ریل بازار میں کرنے شروع کر دیئے۔ جہاں پر ان کے مقامی اور قومی لیڈروں نے قائد عوام کے اسلوب میں تقاریر کرکے لوگوں کادل گرمانا شروع کیا۔ جب بھٹو صاحب نے وزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دیا تو بذریعہ ٹرین ہی لاہور آئے تھے اس روز بھی وزیرآباد ریلوے اسٹیشن پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔لاہور میں آ کر جلسوں کے کئی رنگ دیکھے اور مال روڈپر منعقد ہونے والی ریلیوں اور گول باغ میں ہونے والے جلسوں میں خوب شرکت کیا ور خود کو پاکستان کی ترتیب پاتی ہوئی سیاست کا عینی شاہد بنایا۔ ان ریلیوں میں بھٹو کی گرفتاری کے بعد گول باغ میں نصرت بھٹو کے جلسے کے انجام پر مال روڈ پر عوام کا ہجوم اس زمانے کی ایک عظیم الشان ریلی سے کم نہ تھا۔ پھر اس کے بعد ٹولنٹن مارکیٹ میں شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی کی دست بہ دست لڑائی کا منظر آنکھوں میں ابھی تک تازہ ہے کہ کس طرح کوثر نیازی نے گھی کے ڈبے اٹھا اٹھا کر جارحانہ انداز میں شورش کاشمیری کی طرف اچھالے تھے۔ اب جبکہ دونوں شخصیات دنیا میں موجود نہیں اور نہ ہی ٹولنٹن مارکیٹ وہاں پہ باقی ہے سب کچھ فناء کا حصہ ہی لگتا ہے۔
فناء کے ذکر پر یاد آیا کہ مالیاتی مصروفیات اور گہماگہمی نے ہماری سماجی زندگی کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ مال روڈ پر معدوم ہوتے ریستورانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ستر کی دہائی کے اختتام اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک لاہور میں باقاعدہ ریستورانوں کے علاوہ کئی ادبی، سیاسی اور ثقافتی ڈیرے تھے جو اب نہیں رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے بالمقابل لاہور میوزیم کے باہر Kims نام کی ایک دلربا قسم کی کینٹین ہوا کرتی تھی جس کے باہر شام تک لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ایم اے او کالج کے ساتھ ایک طرف رفوؔکا ہوٹل تھا اور دوسری طرف بند پلستر لگانے والے گل خان کی دکان تھی۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لیے ٹولینٹن مارکیٹ سے باہر کتابوں رسالوں کی 2بڑی دکانوں کے علاوہ دو اچھے اور شائستہ قسم کے ریستوران تھے جب کہ مارکیٹ کے اندر بھی ایک دو مل بیٹھنے کے ٹھکانے تھے۔ ذرا آگے چل کر چائینز لنچ ہوم تھا اس سے آگے پاک ٹی ہائوس۔ پاک ٹی ہائوس کی ریلنگ پر زاہد ڈار سارا دن سردیوں کی دھوپ سینکتے ا ورمطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ شام کو گیٹ کے ساتھ والی ٹیبل پر ترقی پسندوں کا قبضہ تھا۔انیس ناگی جو پاک ٹی ہائوس کے قریب ہی کہیں رہائش پذیر تھے، گرم گرم روٹیاں لینے پاک ٹی ہائوس آیا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات کھڑکی میں سے ہی اندر بیٹھے ترقی پسندوں سے زور دار مکالمہ کر لیتے تھے۔ اس دوران ان کی چھوٹی بیٹی پاک ٹی ہائوس کی ریلنگ کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ مال روڈ پر سامنے کی طرف بلڈنگ میں ’’پیجو‘‘ نام کا ریسوران تھا جو ترقی پسند طلبہ کا گڑھ تھا۔ اس کے سامنے وائی ایم سی اے کا رستوران تھا۔ آٖے بڑھیں تو شیزان ریستوران جو کہ بیک وقت ادبی، سیاسی، قانونی، ثقافتی اور سماجی کریکٹرز کی آماجگاہ تھا۔ بیڈن روڈ پر ’’کیری ہوم‘‘ دوپہر کے کھانے کا ایک اچھا مرکز تھا۔ اب بھی ہے مگر لوگ اس کی تاریخی حیثیت سے بے خبر وہاں کریلے گوشت کھا کر میٹھی لسّی پینے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس سے آگے نقی مارکیٹ میں ایک طرف ’’لارڈز‘‘ تھا اور دوسری طرف ’’انڈس‘‘۔ لارڈز بھٹو صاحب کی بیٹھک کے حوالے سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتا تھا۔ مال روڈ کا آخری ٹھکانہ ’’سلوس‘‘ تھا جو واپڈاہائوس کی بیسمنٹ میں تھااور میل ملاقات کا ایک خوبصورت مرکز بھی تھا۔ لاہور کے سیاسی، ادبی، ثقافتی اور سماجی راہنما اور کارکن ان ٹھکاکوں پر اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے خیالات شیئر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ فلم کے حوالے سے رائل پارک اور گوالمنڈی ،لکشمی چوک متوازی ٹھکانے تھے۔ اس طرح بھاٹی گیٹ کے عین وسط میں بڑی سی چارپائی پر مشتاق بٹ ایڈووکیٹ اپنی پنجابی بیٹھک لگایا کرتے تھے۔ پنجابی زبان کے حق کے حوالے سے ان کا بھاٹی دروازے سے چیئرنگ کراس کا جلوس آج بھی پنجابی زبان کی تاریخ کے حوالے سے یاد ہے۔ بوہڑ والے چوک میں نوابزادہ نصراللہ خان کی رہائش ایک سیاسی تربیت گاہ سے کم نہ تھی۔ ایک بڑا ادبی ٹھکانہ طاہر اسلم گورا کا ’’پاکستان بکس اینڈ لٹریری سائونڈز‘‘ جو بعد میں ’’گورا پبلشرز ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا، لوئرمال پر واقع اس ادبی اڈے پر سارا دن ادیبوںاور دانشوروں کی آمدورفت رہتی۔ان سب کی کتابیں یہاں سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ طاہر اسلم گورا کا ایک ایڈونچر تھا کہ اس نے ایسے لوگوں کو جن کی کتابیں دوہزار پر ماہانہ کی بھی نہیں بکتی تھیں ماہانہ دس دس ہزار روپے کا پیکج دیا ہوا تھا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا یہ ادارہ چند سال بعد ہی دیوالیہ ہوا اور طاہر اسلم گورا جیسے غیرکاروباری اور نفیس آدمی کو ملک بدر ہونا پڑا۔
اس سارے منظرنامے کو بیان کرنے کا مطلب نئے زمانے، نئی ایجادات اور نئے اسلوب زندگی کی مخالفت ہرگز نہیں۔ ہماری نئی نسل بھی ہر نئی نسل کی طرح ذہین اور صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ مسئلہ صرف اسے گائیڈ کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو مثبت انداز فکر سے جوڑنے کا ہے جس کے لیے دونوں طرف سے قدم بڑھائے جانے کی ضرورت ہے بلکہ زیادہ ذمہ داری گذشتہ نسل پر ہے کہ اسے نئی نسل کو تنہا ہونے سے بچانا ہے۔ خود چل کر جانے کے حوالے سے اگر پرانی نسل ’’ایغو‘‘ کا شکار رہی اور نئی نسل اپنی خودپسندی کا تو پھر یہ جنریشن گیپ ایک کلچرل شاک کی حیثیت اختیار کر لے گا۔

ای پیپر دی نیشن