اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو منی لانڈرنگ، غیرملکی فنڈنگ ، آف شور کمپنیاں رکھنے کی بنیاد پر عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دینے کے حوالے سے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، عدالت نے قرار دیا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جو کچھ سامنے آیا اس میں سے سچ تلاش کریں، دیکھنا ہے کہ بددیانتی ہوئی ہے کہ نہیں، جہانگیر ترین کے پہلے تحریری جواب اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تضاد ہے۔ بظاہر لگتا ہے ترین آف شور کمپنی کے مالک ہیں ۔ جہانگیر ترین ٹرسٹ کے صوابدیدی نہیں تاحیات بینفشری ہیں، ان کے تحریری جواب سے افسوس ہوا، عدالت کو بتایا جائے کہ ماضی کی غلط بیانی کا اثر موجودہ الیکشن پرکس طرح پڑسکتا ہے، انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ سچ بولنے والے کو اپنی بات یاد نہیں رکھنا پڑتی، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں جانب سے سچ کون بول رہا ہے، منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کی روشنی میں اپنے جوابی دلائل میں موقف اپنایا کہ میرے کسی جواب میں بھی تضاد نہیں، عدالت کو بتا چکا ہوں کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کا اعلان ہونے کے بعد لندن فلیٹ ڈکلئیر کیا گیا، عمران نے کوئی یوٹرن نہیں لیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ عمران نے لندن فلیٹ ڈکلیئر کیا مگرآف شور کمپنی نہیں کی، فاضل وکیل نے بتایا کہ ہم جتنی دستاویزات اکٹھی کرسکتے تھے وہ ہم نے عدالت میں پیش کردی ہیں، سماعت کے دوران درخواست گزارکے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے عمران خان کو اپنے بیان میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی، نعیم بخاری کاکہنا تھا کہ نیازی سروسز کے اکائونٹ میں ایک لاکھ پاونڈز رکھے گئے تھے، اس اکائونٹ سے جولائی 2007ء میں عمران خان کے اکائونٹ میں 20ہزار یورو کی رقم آئی جبکہ مارچ 2008ء میں اس اکائونٹ میں 22ہزار یوروکی رقم آئی تھی بعدازاں یہ رقوم 2012ء میں کیش کرائی گئیں، اگر عمران خان نے کچھ چھپایا ہوتا تو ریٹرننگ افسر ان کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرسکتا تھا جبکہ الیکش کمشن نے بھی عمران خان کے ریٹرن پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ اس وقت ریٹرننگ افسر نے معاملہ نہیں دیکھا تھا ہمیں بتایا جائے کہ کیا عدالت اب کاغذات نامزدگی کونہیں دیکھ سکتی، عمران خان کے وکیل نے کہاکہ اثاثوں کے غلط ہونے یا 2002ء کے گوشواروں میں غلط بیانی کی بات کرکے 2013ء کے الیکشن کیلئے نااہل کرنے کی استدعاکی گئی ہے ، لیکن یہ سچ ہے کہ 2002ء کے اثاثے بتاتے عمران خان سے غلطی تو ہوسکتی ہے غلط بیانی نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ بتایا جائے کہ پانامہ کیس میں کاغذات نامزدگی میں تنخواہ کو ظاہرنہ کرنا غلطی تھی یا غلط بیانی، تو جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اثاثے چھپانے اور غلطی میں فرق ہے لیکن عمران خان نے اپنا یورو اکائونٹ ظاہر نہیں کیا ہے ہمیں بتایا جائے کہ آپ کے موکل نے کب اور کتنی رقم سے اپنا یورو اکائونٹ کھولا تھا، فاضل وکیل نے کہاکہ یہ اکائونٹ تب کھولا گیا جب وہ ایم این اے تھے اور یہ اکائونٹ لندن فلیٹ کی عدالتی کا رروائی کے دوران کھولا گیا، عدالت نے یہاں ایمانداری اور ایماندار نہ ہونے میں فرق کرنا ہے، نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت پانامہ فیصلے کا نظرثانی فیصلہ بھی دیکھ لے، نعیم بخاری کہتے ہیں کہ اثاثے نہ بتانا غلطی ہو سکتی ہے مگر بددیانتی ہرگز نہیں ہو سکتی، حالانکہ عمران خان نے جمائما خان کی بنی گالہ اراضی کاغذات میں تو ظاہر کی لیکن پاکستان سے باہر جمائما کے اثاثے نہیں بتائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پانامہ کیس کے نظرثانی فیصلے کے بعد کاغذات نامزدگی کے پیرا میٹرز سخت ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ ہمیں بتایا جائے کہ ماضی میں کی گئی غلط بیانی کا موجودہ الیکشن پرکیسے اثر پڑ سکتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان نے 18سچ تحریری جوابات میں بیان کئے ہیں۔ انہوں نے 18بار اپنا مئوقف بدلا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تمام چیزوں کو دیکھ رہے ہیں، آپ کے کہنے پر بہت سی باتیں نوٹ کرچکے ہیں آپ نے جہاں تضاد کی نشاندہی کی ہم نے اسے نوٹ کیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ عدالت نے حقائق اور سچ کا تعین کرنا ہے ہم نے 184/3کے مقدمے میں حقائق اور شواہد کو بھی دیکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بے ایمانی کا تعین مواد سے ہونا ہے اور تمام مواد سے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بے ایمان آدمی ہے یا نہیں، اکرم شیخ نے عدالت سے کہاکہ باقی تو ٹھیک ہے لیکن جھوٹا بیان حلفی دینے والے کو کیا کہیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ قانونی معاملات کا پھٹے پر بیٹھ کر پتا چلتا ہے اوپر سے آنے والوں کو قانونی معاملات کی اتنی سمجھ نہیں آتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شائنی ویو نئی کمپنی تھی جو اپریل 2017ء میں بنائی گئی سکندر نے کہا کہ جہانگیر ترین نے رقم آف شور کمپنی کو بھیجی۔ جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہاکہ اس طرح تو جہانگیر ترین بینفشل ہے سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیر ترین کمپنی کے بینفشل نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف اپنے اکائونٹ سے رقم باہر بھیجی۔ جسٹس فیصل عرب نے ان سے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ اثاثہ آپ کا ہو لیکن ظاہر نہیں کیا گیا یہ ٹھیک ہے کہ پیسہ قانونی طریقے سے بھیجا گیا ہے۔ جہانگیر ترین نے تمام منی ٹریل بتا دی ہے لیکن ٹرسٹ میں وہ تاحیات بینفیشری ہیں۔ انہوں نے براہ راست رقم آف شورکمپنی کو بھیجی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جہانگیر ترین نے رقم ٹرسٹ کو نہیں بھیجی۔ فاضل وکیل نے کہاکہ آف شور کمپنی کے شیئرز ٹرسٹ کی نگرانی میں ہیں جبکہ ٹرسٹ خود ایک قانونی ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جہانگیر ترین کے پہلے تحریری جواب اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تضاد ہیں اور جہانگیر ترین صوابدیدی نہیں بلکہ تاحیات بینفشری ہیں۔ سکندر بشیر نے کہا کہ عدالت صوابدیدی کے لفظ کو نظر انداز نہ کرے۔ ٹرسٹی جہانگیر ترین کا تاحیات بینیفشری ہونا ختم کر سکتا ہے۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے جہانگیر ترین نے اپنے ہاتھ کاٹ کر دے دئیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ٹرسٹ خود سے ایک قانونی ادارہ ہے فاضل وکیل نے کہاکہ ٹرسٹ کی کوئی انکم نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ جہانگیرترین کے تحریری جواب سے افسوس ہوا ہے جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ وہ عدالت سے غلطیوں پر معافی مانگتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کیا جہانگیر ترین کا ٹرسٹ پر کنٹرول نہیں۔ ٹرسٹ کے بینی فیشری ہونے کے ناطے اسے بھی گوشواروں میں ظاہرکرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے ٹیکس اتھارٹی کو بتایا ہے کہ بچے ٹرسٹ کے بینیفیشل ہیں، ان کے موقف میں تضاد ہے اپنے کاغذات نامزدگی میں کسی کو بینفیشل نہیں بنایا گیا، سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل عاضد نفیس نے کہاکہ جہانگیرترین کے بچے ابھی بینفیشل بنے ہی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بات بظاہر درست لگتی ہے کہ بچے ابھی ٹرسٹ کے بینیفیشل نہیں ہیں، عدالت نے فاضل وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عمران خان اورجہانگیرترین کی نااہلی کے حوالے سے دونوںکیسوں کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے واضح کیا کہ کوئی یہ امید نہ رکھے کہ کیس کاکل ہی فیصلہ آ جائیگا، ابھی مزید تحریری مواد اور گزارشات آنی ہیں، مجموعی تصویر دیکھ کر طے کریں گے کہ بددیانتی ہوئی ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہاکہ ہم سچ کی تلاش میں ہیں، ہمیںبیان حلفی کی اہمیت کا بھی احساس ہے لیکن اس پر ابھی کوئی کمنٹ نہیں کروں گا، تاہم جب ریٹائرڈ ہونگا تو عمران خان اور جہانگیرترین سے ایک سوال ضرور کرونگا۔
اسلام آباد (نامہ نگار) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پارلیمنٹ، پی ٹی وی سمیت دیگر اہم عمارتوں پر حملے اور سابق ایس ایس پی اسلام آباد پولیس عصمت اللہ جونیجو پر تشدد سمیت چار مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور انہیں فوری شامل تفتیش ہوکر بیان ریکارڈ کا حکم دیتے ہوئے چاروں کیسز کی سماعت 24 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ منگل کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے درخواست ضمانت دائر کی جس پر عدالت نے عمران خان کی چار مقدمات میں دو ،دو لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس اور سابق ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو تشدد کیس میں اشتہاری ملزم ہیں۔
عمران نے لندن فلیٹ ظاہر کیا آف شور کمپنی نہیں: سپریم کورٹ ‘ نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ
Nov 15, 2017