پنجاب کی سرزمین سے پاکستان کے اُفق سیاست پر اُبھرتی ہوئی رہنما خاموش ہیں اور ان کی خاموشی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خاموشی بے وجہ اور بے سبب نہیںہے۔ اس کے اسباب بھی ہیں۔
ایک واضح سبب تو کلثوم نواز کی رحلت ہے۔ محترمہ کلثوم نواز سے مریم نواز کی بہت جذباتی وابستگی تھی۔ وہ صرف ماں نہیں تھیں‘ مریم کی اُمید‘ حوصلہ بھی تھیں۔ وہ مریم نواز کی تعلیم کے حوالے سے استاد بھی تھیں۔ مریم نواز کو محترمہ کلثوم نواز نے راہ دکھائی کہ وہ سیاست کے شعبہ میں قدم رکھیں۔ انہوں نے اس حوالے سے مریم نواز کی Grooming بھی کی۔ یہ مرحومہ کا دیا ہوا حوصلہ تھا کہ مریم نواز نے امریکہ میں مشعل اوباما جو اس وقت خاتون اول تھیں کے روبرو ایک مشترکہ تقریب سے خطاب کیا۔ یہ محترمہ کلثوم نواز کی تربیت کا کرشمہ تھا۔
محترمہ کلثوم نواز کی وفات محض ایک ماں کی موت نہیں تھی۔ نوازشریف قدآور سیاستدان ہیں۔ جب انہوں نے پاکستان میں Stay اور مقدمات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تو مریم نے باپ کا ساتھ دیا۔ اس دوران ماں شدید علیل تھیں۔ علیل ماں کو چھوڑ کر پاکستان آئیں تو باپ کے سامنے بیٹی کو قید کرکے سیاست کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ حوصلہ سے اڈیالہ جیل میںرہیں۔ اس دوران لندن میں محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ یہ عجیب صورتحال تھی کہ نوازشریف پاکستان آئے تو بے سروسامانی کی صورت میں گرفتار ہو گئے۔ محترمہ مریم نواز بھی ان کے ہمراہ قید ہو گئیں۔ وہ تصویر یاد کیجئے کہ نوازشریف جہاز کی سیڑھی سے اتر رہے ہیں‘ ان کے آگے مریم نواز ہیں اور استقبال کیلئے مسلح افراد جو وردیوں میں ملبوس ہیں‘ الرٹ کھڑے ہیں۔
محترمہ کلثوم نواز کا دکھ مریم کے ساتھ ہمیشہ رہے گا مگر وقت بڑا مرہم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صبر عطا کرتا ہے۔مریم کے ساتھ قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ سیاست کے اولین دنوں میں ہی قید اور مصائب اُن کا مقدر بن گئے مگر انہیں ملا کیا۔ اس موقع پر ہم اس اظہار کیلئے معذرت چاہتے ہیں مگر حقائق واضح نہیں ہونگے اگر کہانی سے ان کا نام حذف کر دیا جائے گا…؎
اب آگے راس میں تمہارا بھی نام آئے گا
کہو تو ختم ہی کر دوں یہاں فسانے کو
چودھری نثار اقتدار کے رخصت ہوتے ہی نوازشریف کے مخالف بن گئے۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا مگر وہ مریم نواز کے خدا واسطے مخالف کے طورپر سامنے آئے۔ انہوں نے مریم کے خلاف بلاجواز بیانات دیئے حالانکہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں اور خاص طورپر مظلوم بیٹیوں کی شفقت سے ہمت افزائی کی جاتی ہے اور مریم نواز نے کبھی ایک نقطہ چودھری نثار کیلئے نہ بولا۔
صاف بات تھی کہ جناب شہبازشریف اور حمزہ شریف نوازشریف کی وجہ سے چُپ تھے مگر وہ مریم نواز کی سیاست میں آمد کے خلاف تھے۔ انہوں نے خاموشی سے اس حوالے سے کردار انجام دیا۔جناب چودھری نثار سے ان کے رابطے تھے اور دراصل چودھری نثار ان کے ایما پر مریم نواز کے خلاف بولنے لگے۔ اس احوال کا علم مریم نواز کو بخوبی تھا مگر وہ بھی حوصلے سے آگے بڑھ رہی تھیں اور ایک اہم سیاستدان کی حیثیت سے ان کا Image قائم ہو گیا۔
لندن سے واپسی پر نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ لاہور ایئرپورٹ پر عوام سے خطاب کریں گے اور ظاہر ہے مریم نواز بھی۔ لاہور کے عوام اس روز لاکھوںکی تعداد میں جمع ہوئے‘ لیکن خود مسلم لیگ کی قیادت نے جھوٹ بول کر انہیں روک لیا۔ نوازشریف اترے تو عوام کا نام نہیں تھا۔ وردی والے تھے اور وہ۔
اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یہ کارنامہ شہبازشریف نے انجام دیا۔ وہ کس سے روابط میں تھے‘ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے۔ اس کارنامے کی وجہ سے شہباز اور حمزہ اہم مناصب پر ہیں مگر نواز اور مریم نواز اڈیالہ جیل کے حوالے ہو گئے۔
محترمہ کلثوم نواز کا سوئم ہوا نہ چہلم‘ خاندان نے کر بھی لیا توجن عوام سے ووٹ لیتے ہیں‘ ان کو شرکت سے ارادتاً محروم کر دیا گیا۔ یہ ہے ووٹ کی پرچی کا احترام۔ جو ڈھونگ ثابت ہوا۔مریم نواز‘ اس صورتحال سے بھی ناراض ہیں۔ دوسرے اب جارحانہ سیاست PTI کے خلاف نہ کی تو وہ موقع ضائع کر دیں گی۔ شہباز اور حمزہ کی سیاست چھپ کر مصالحت اور محض بیان بازی کے ذریعے مخالفت کی سیاست ہوگی۔ صاف ظاہر ہے کہ اب مریم نواز کا راستہ اور ہے جبکہ شہباز اور حمزہ کا اور۔
مریم نواز کی ایک مشکل یہ ہے کہ اخلاقیات میں گرفتار نوازشریف نے نہ پہلے کہا کہ مریم نواز ان کی سیاسی وارث ہیں نہ اب کہہ رہے ہیں۔ آخر وہ کیوں نہیںکہتے۔ باپ کی یہ ادا بھی مریم نواز کیلئے مشکل حالات پیدا کرتی ہے۔ بظاہر سیاست میں سازش سے شہباز اور حمزہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے وارث بن چکے ہیں۔ مریم نواز کے پاس بغاوت کے علاوہ کوئی راستہ بچا ہی نہیں ہے۔ خاموش مریم نواز ایک روز ضرور بولے گی۔