ضمیرِصدف پہ کرن کا مقام

اخباری کالموں کا شمار صحافتی اصناف سخن میں ہوا کرتا تھا‘ اب اسے ادبی اصناف سخن میں بھی شمار کیا جانے لگا ہے‘ کالم کیا ہے؟ یہ ایک ایسی ابلاغی تحریر ہے جو کوئی صاحب الرائے اپنے ذاتی خیالات و تصورات پیش کرنے کے لئے اخبار میں لکھتا ہے۔ ایک ایسا فکری و نظری بولڈ ایکسپیریمنٹ جو پرنٹ میڈیا یعنی اخبار کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ سکہ بند اخبار نویسوں اور لکھاری میں یہ مقبول صنف سخن اس لئے بھی ہے کہ اس کے ذریعے لکھنے والے کا پور کیتھارسس ہو جاتا ہے اور وہ پورے وثوق‘ اعتماد اور طمطراق کے ساتھ اپنے ذاتی تصورات کی دلیری کے ساتھ لڑی پرو سکتا ہے۔ میں اپنے ان خیالات کا اظہار پورے بہا¶ اور نغمگی کے ساتھ کر رہا تھا‘ اس لئے بھی کہ میرے اس لیکچر کے سامعین زیادہ تر نوجوان لکھاری تھے‘ فیڈرل یونین آف کالمٹس کے روح رواں عمر عبد الرحمن جنجوعہ اور دیگر نوجوان لکھاریوں نے کالم نگاری پر مجھے اپنے سیمینار میں بڑے اصرار اور محبت کے ساتھ بلایا ہوا تھا‘ ان میں سے اکثر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں میرے ماس کام کے شاگرد بھی رہ چکے تھے‘ مجھے ان کی امنگ اور ذہنی‘ فکری اٹھان دیکھ کر بہت مسرت ہوئی‘ قلم کے ساتھ ان سب کا رشتہ اٹوٹ انگ تھا اور یہ ملاحظہ کر کے بھی میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ یہ سب نوجوان کتاب بین تھے‘ بلکہ ان میں سے بعض تو صاحب کتاب بھی تھے۔ مجھے کالم نگاری پر لیکچر کا موضوع ”اردو کالم نگاری میں زبان دانی کی اہمیت“ دیا گیا تھا۔ میں نے اس عنوان سے قدرے اختلاف کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ کالم چونکہ صحافتی صنف سخن ہونے کے ناتے ابلاغیات کے زمرے میں آتا ہے‘ لہذا اس میں زبان دانی کی اس طرح سے کوئی گنجائش نہیں جیسا ہمارے کلاسیکی ادیب اور نثر نگار اپنی تحریروں کو بظاہر چار چاند لگانے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ دراصل کالم میں ابلاغ کا عنصر ختم ہوجائے تو اس کا مجموعی حسن اور نکتہ رس خصوصیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اردو نثر میں جدید عہد ہے ہی ابلاغیات کا‘ شاعری میں بھی سہل ممتنع کے خصائص سرچڑھ کر بول رہے ہیں۔ اس ضمن میں جون ایلیا نے جو طرح ڈال دی ہے‘ وہ بجائے خود ایک شعری لہجے کا ابلاغ ہے اور ان کی شہرت کا ضامن بھی۔ میرا کہنا تھا کہ کالم نگاری کو ابلاغیات کے ساتھ جڑا رہنا چاہئے‘ یہی اس کے آگے بڑھنے کا چلن بھی ہے اور سلیقہ بھی۔ جو لکھاری بھی اس جہت سے روگردانی کا مرتکب ہو گا‘ وہ نہ صرف اپنی ساکھ کھو دے گا بلکہ کالم نگاری کے اضطراری خدوخال اور روایت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ میرا اصرار تھا کالم لکھتے ہوئے زبان دانی کی جرات و استطاعت کو ایک جانب رکھ کر ایسا نثری سلیقہ اختیار کرنا چاہئے کہ جس کے تحت اردو محاورات‘ روزمرہ اور اصطلاحات جدید انگ کے ساتھ نثری تحریر بن سکیں۔ میری دانست میں کالم نگاری کا سکہ بند طریقہ اور جدید مروجہ لب و لہجہ ابلاغیات کے ساتھ ساتھ علم بدیع اور علم بیان کی لطیف جہتوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر کالم نگاری کے طالب علموں کو اردو زبان کی صرف و نحو کا ادراک بھی ہونا چاہئے۔
اپنا لیکچر جاری رکھتے ہوئے میں نے کلیدی سوال اٹھایا کہ کالم نگاری کا اہل کون ہے؟ کالم کون لکھے اور اس منصب پر فطری اور اضطراری طور پر کس کا حق ہے؟ میرا کہنا تھا کالم لکھنے کا پہلا حق عامل صحافی کا ہے‘ وہ لکھے لیکن اس صحافتی صنف سخن میں قدم رکھنے والے کا چاہے وہ صحافی ہو یا غیر صحافی صاحب الرائے ہونا ازحد ناگزیر ہے‘ یعنی وہ اپنی تعلیم اور تربیت کا بنیادی مرحلہ طے کر کے اپنے مشاہدات و تجربات کو استوار کر چکا ہو۔ زندگی اور نظام زندگی سمیت خدا‘ کائنات اور سائنسی حقائق بشمول فلسفہ و ادب پر غور کا عادی بن چکا ہو‘ اس کے اندر یہ جرات و استطاعت پیدا ہو چکی ہو کہ وہ اپنے تصورات کو برملا پیش کر سکے‘ اسلام کے بنیادی اور کلیدی نظریات پر اس کا یقین محکم ہو‘ فروعی معاملات کو اجتہاد کی عمیق نگاہ سے دیکھتا ہو تو ایسا نکتہ رس اور صاحب بصیرت شخص کالم نگاری کی طرف آئے اور اپنے جو بھی خیالات کالموں میں پیش کرے‘ اس پر اختلافی رائے رکھنے والوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ بھی کرے‘ اس کی شخصیت کی شائستگی اور بردباری قلم کے ذریعے ٹپکتی ہو‘ ایسے اوصاف کے حامل نفوس ہی کالم نگاری کے متحمل ہو پائیں گے‘ انہیں ہی اس میدان خارزار میں قدم رنجہ ہونا چاہئے۔ میرا کہنا تھا اس کا مقصد و مدعا یہ نہیں کہ کالم لکھنے کی مشق کرنے والے اس میدان میں نہ آئیں‘ ضرور آئیں مگر سیکھنے کے لئے‘ ریاض کی خاطر اور اپنے خیالات و تصورات کو کتب بینی کے ساتھ ساتھ مشاہدات و تجربات سے بھی مزین کریں۔ اس موقع پر میرا موقف تھا کہ برٹنڈرسل نے اصول تحقیق کے جو چار ٹولز بتائے ہیں‘ وہ کالم نگاروں کو بھی ذہن میں رکھ لینے چاہییں‘ کیونکہ کالم ہو یا کوئی دوسری صحافتی صنف سخن‘ اس میں کوانٹی ٹیٹیو تحقیق کی ایک لطف سی لہر ضرور در آتی ہے‘ جس کے تحت مطالعہ‘ مشاہدہ‘ تجربہ اور نتائج کی برآوری چار مراحل ناگزیر ہیں۔ میرا اصرار تھا کہ کالم نگار کو بلا کا شاہد ہونے کے باوصف زندگی و نظام زندگی کے تجربے کا حامل ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں‘ میں نے اپنے ایک مشاہدے کا تذکرہ بھی کیا‘ عید الفطر کے چاند کی آمد آمد تھی‘ لوگ مغرب کی اذان کے قریب آسمان کی طرف منہ اٹھائے ہوئے تھے‘ میں راولپنڈی صدر کی ایک مصروف شاہراہ سے پیدل گزر رہا تھا‘ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آٹھ نو سال کا بچہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر بیٹھا کاغذ چن رہا تھا‘ اچانک دور سے آواز آئی چاند نظر آ گیا‘ بچے نے وہیں کوڑے کے ڈھیر پر براجمان آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بھی چاند نظر آ گیا‘ وہ اپنے گندے ہاتھوں کو بلند کر کے دعا کر نے لگا‘ میں اس کے قریب ہی کھڑا تھا‘ دفعتاً اس کے برابر جا بیٹھا اور بچشم نم بچے کی دعا میں شامل ہو گیا‘ اچانک میری آنکھیں چھلک کر برسات بن گئیں‘ مجھے عید کے چاند سے زیادہ کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے اس چاند کی معصومیت اور اللہ کریم کے ساتھ وابستگی نے نہال کر دیا‘ میں نے بچے کے بظاہر گندے سر پر ہاتھ رکھا تو محسوس ہوا کہ اللہ کریم نے اس پر رحمتوں کے سائے کر دئیے ہیں‘ رحمتوں کے یہ تھپیڑے میں نے اپنے دل کے دروازے پر بھی محسوس کئے‘ بچہ کسی غریب گھر کا لیکن انتہائی خوبصورت تھا‘ میں نے اسے ساتھ لیا‘ بازار سے نیا لباس اور جوتے خرید کر دئیے‘ عیدی بھی اس کے ہاتھ میں تھمائی‘ اسے خدا حافظ کر کے میں جونہی پلٹا‘ کیا دیکھتا ہوں وہ بھی سڑک سے کاغذ چننے لگ گیا‘ مجھے عدم یاد آ گیا‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا
ضمیر صدف پہ کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے تیرے
اگلے دن میں نے اس واقعہ پر کالم لکھا جو چند روز بعد نوائے وقت میں شائع ہوا۔ دوران لیکچر یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہو گئیں‘ ہزار کتاب بینی کریں‘ مشاہدہ اور تجربہ لکھاری کی جھولی میں وہ موتی ڈال دیتا ہے‘ جس پر تازندگی آپ مسرور و شاداں رہتے ہیں۔ میرا کہنا تھا کالم نگار کی جھولی میں بہت سے موتی ازخود آ گرتے ہیں‘ ان میں سے ایک مشاہدے کے بل پر دل کو چھو لینے والی تحریر جب منصہ شہود پر آنے لگتی ہے تو وارفتگی کا عالم دیدنی ہوتا ہے‘ کالم نگار جھوم اٹھتا ہے اور اسے ایک ایسی طمانیت میسر آ جاتی ہے‘ جو روحانی بالیدگی کے عمل سے حلقہ بگوش ہو سکتی ہے اور دوسری جہت یہ کہ کالم چونکہ ذاتی مشاہدہ‘ ذاتی تجربہ اور ذاتی تصورات پر مبنی ہے‘ اس لئے کہیں نہ کہیں سے اس بارے کوئی دوسری رائے بھی آ جاتی ہے اور اگر حساس موضوعات پر ذاتی خیالات کا اظہار کیا جائے تو جواب میں مخالفانہ رائے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ اس سارے عمل میں خوش آئند بات یہ ہے کہ کالم مکالمہ پیدا کرتا ہے‘ ردو قبول کا جوہر لکھاری کے باطن میں لابھرتا ہے‘ اسی لئے زندہ قوموں میں مکالمہ کبھی نہیں مرتا‘ بات کرنے اور پھر اس کا جواب سہنے کی ہمت معاشروں کو مرنے نہیں دیتی‘ جب کوئی معاشرہ مرنے لگے تو دراصل اس کے اندر مکالمہ پہلے مر جاتا ہے‘ اس لئے فی زمانہ زندہ معاشروں میں کالم نگاری انسانوں کو زندہ رکھتی ہے‘ انہیں جرات اظہار دیتی ہے‘ جو دلیری کی علامت ہے۔ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام کالم نگاری پر لیکچر کا یہ مرحلہ بیتا تو سوال و جواب کے مرحلے میں نوجوان لکھاریوں نے بھرپور حصہ لیا۔ میں نے بھی مختلف سوالوں کے شافی جواب دینے کی بھرپور کوشش کی۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن