ہم میں سے یہ کون نہیں جانتا کہ اس عارضی دنیا میں ہر انسان جبکہ بطور خاص ہر مسلمان روز قیامت کے آنے پر یقین کامل رکھتا ہے اور اسی غرض سے آخری بڑے حساب کے دن کے حوالے سے اپنا حساب صاف رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر نہیں کرتا ہے تو کرنی چاہئے یہ الگ بات کہ موجودہ معاشرتی انتشار اور روحانی ناآسودگی کے دور میں لگتا ایسا ہے کہ اصل قیامت کے آنے سے پہلے کئی اور قیامت صغریٰ اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ ہر لمحہ‘ ہر ساعت ایسے ایسے ناقابل یقین واقعات بلکہ سانحات رونما ہو رہے ہیں کہ ایک قیامت آئی ہوئی لگتی ہے۔ کیا یہ چاند پر پہنچنے کے باوجود خود اپنے آپ تک اور اپنے اندر تک نہ پہنچ سکنے والے نام نہاد مہذب انسان کے حوالے سے قیامت خیز المیہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی قتل و غارت کے علاوہ نفسیاتی‘ اخلاقی اور روحانی سطح پر ایک دوسرے کو کس ناقابل یقین انتہا تک اور کس درندگی کے مقام تک اتر کر تہس نہس کر رہا ہے۔ خدا جانے خود کو وہ کب انسان ثابت کر سکے گا؟ احکامات رب العالمین اور ختم المرسلین پر مکمل طورپر سرجھکا کر کب جینا سیکھے گا؟ تب تک شاید ہر طرف اسی طرح انسانی خون بہتا نظر آئے گا۔ ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑے‘ تنازعے‘ قتل و غارت اور جنگ و جدل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ایسی سرخ صورتحال یقیناً ناقابل برداشت ہے لیکن اس قیامت سے بھی بڑی قیامت انسانی خون کا سفید ہو جانے کے بعد سیاہ ہو جانا ہے جس کی سیاہ سیاہی میں سب کچھ نابود ہو جانے کا امکان موجود ہے اس لئے کہ اب اس پوری کائنات کی وجہ بنیاد والدین کا بنیادی پاکیزہ رشتہ بھی موجودہ اخلاقی گراوٹ اور افراتفری کی زد و ضرب میں آ گیا ہے بلکہ بعض صورت میں والدین کے حوالے سے اولاد کی بے حسی بلکہ باقاعدہ گستاخی اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ ان کی محبتیں‘ شفقتیں‘ دعائیہ جذبے سب کچھ ایک عالم سکتہ میں آ گیا ہے خاص طورپر وہ ماں جو اولاد کے لئے ان کی جنت اپنے پا¶ں کے نیچے رکھتی ہے اور جس کے نام سے روز قیامت اولاد اٹھائی جائے گی اکثر حالتوں میں چیتھڑے پہنے‘ ہاتھوں میں بھیک کی کٹوریاں لئے گلیوں میں پھرتی نظر آتی ہے یا اولڈ پیپلز ہا¶س میں ویران آنکھوں سے اولاد کی راہ تکتی نظر آتی ہے آخر ان کی ”پیٹ جائی“ اولادیں کہاں ہیں؟ انہیں کون وہاں چھوڑ گیا ہے؟ جی ہاں یہی وہ اولاد کی جانثار ہے خود بھوکی پیاسی رہ کر بچے کا پیٹ بھرنے والی ہستی ہے جس کے بارے میں کسی نے حضور پاک سے پوچھا کہ اس کے حسن سلوک اور احترام کی سب سے زیادہ حقدار کون سی ہستی ہے تو آپ نے فرمایا۔ تمہاری والدہ‘ اس نے دوسری مرتبہ یہی سوال پوچھا تو فرمایا تمہاری والدہ‘ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی آپ نے ارشاد فرمایا تمہاری والدہ جبکہ چوتھی بار سوال پر فرمایا تمہارا والد.... وہی والد اکثر دیکھا گیا ہے کہ عالم بزرگی میں چھڑی ٹیکے سڑک پر بھیک مانگتا نظر آتا ہے جبکہ اولاد ساتھ سے فراٹے بھرتی کار میں نکل جاتی ہے۔
قارئین کرام حیرت بلکہ شدید دکھ کا مقام ہے کہ لمحہ موجود میں خود غرض اولاد والدین کی تکریم کرنے‘ ان سے نرم و ملایم سلوک کرنے اور ان کی دعائیں حاصل کرنے کے بجائے اپنی ذاتی عیش و عشرت‘ خوشیاں اور دنیاوی سہولیات سمیٹنے میں اس درجہ محو و مصروف ہو گئی ہے کہ ان مبارک ہستیوں کی طرف مڑ کر دیکھنے کا بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے خاص طورپر وہ ماں بھی جس نے ان کو جنم دیا‘ خون جگر پلا کر پالا پوسا‘ لمحہ لمحہ ذاتی قربانی دے کر ان کا خیال رکھا وہ بھی آج اس کی توجہ کی محتاج ہے خدا نہ کرے‘ خدا نہ کرے اگر ایسے حالات میں اور اس دکھ میں اس کی مامتا ٹھنڈی پڑ گئی‘ اس کی بے لوث دعائیں اس کے بوڑھے ہونٹوں پر منجمد ہو گئیں؟ اس کی دل شکستگی براہ راست اللہ تعالیٰ کی نظر میں آ گئی؟ اس کے آنسو اگر سمندر بن گئے؟ تو پھر اولاد کا اس میں ڈوب جانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ کار نہیں رہ جائے گا‘ عذاب الہیٰ سے ان کو کون بچائے گا؟ سو اس سے پہلے کہ ایسی قرب قیامت کی نشانی اصل قیامت میں ڈھل جائے آج کی بے حس اولاد اپنے مکمل ترین اور پاکیزہ ترین مذہب کی اعلیٰ تعلیمات کے مطابق اپنے حقوق و فرائض کا ادراک کرے۔ انسان‘ انسانیت اور کائنات پر ایسا کڑا اور بڑا وقت آنے سے پہلے سنبھل جائے۔ اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ا گر اس دنیا میں بندہ بندے کو چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسے پناہ دے دیتا ہے لیکن اس وقت سے پناہ مانگے جب اس کے کالے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ خود بندے کو تنہا چھوڑ دے تو اس کے لئے کوئی دوسری پناہ نہیں ہے نہ اس جہان میں نہ دوسرے جہان میں‘ سو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نیکی کی توفیق دے بخدا کائنات کے تمام تر مصائب اور آفات ٹل جائیں گی۔ ہر طرف امن اور سکون کی روشنی پھیل جائے گی۔