حکومت نوازشریف کو علاج کیلئے باہر بھجوائے: چیئرمین سینٹ کی رولنگ

Nov 15, 2019

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) چیئرمین سینٹ صادق خان سنجرانی نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کیلئے علاج کی تمام سہولیات کی فراہمی کی رولنگ دے دی۔ رولنگ میں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت اور بیرون ملک روانگی کی اجازت کا معاملہ سینٹ میں پہنچ گیا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے نکتہ اعتراض پر نوازشریف کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی صحت خراب ہے عدالتیں ضمانت دے چکی ہیں اور حکومتی میڈیکل بورڈ نے بھی کہا ہے کہ ان کی صحت کو شدید خطرات ہیں۔ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ بنایا تھا۔ نواز شریف کی زندگی کو بہت خطرہ ہے۔ بورڈ حکومت نے قائم کیا تھا۔ ای سی ایل کے قانون کو کوئی آئینی کور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی کو شیورٹی بانڈ جمع کرانے کا نہیں کہا گیا۔ آج سیاست میں دشمنی کی جارہی ہے۔ یہ نئی روایات ڈالی جا رہی ہیں۔ میں وزیر قانون سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا۔ عمران خان کا ایکسیڈنٹ ہوا تو نواز شریف نے اپنی مصروفیات ترک کر دیں۔ آج ایسی روایات ڈالی جارہی ہیں کہ جس سے ملک کو خطرہ ہے۔ کیا یہ قانون سابق وزیر اعظم اور صدر کے لئے رہ گیا ہے۔ حکومت اپنی طاقت کا غلط استعمال نہ کرے۔ حکومت یہ جو کر رہی ہے وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ وزیر قانون کی ڈیمانڈ غیر قانونی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ شرمناک صورتحال ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ بغیر کسی چارج کے سابق صدر کو یرغمال رکھا ہوا ہے۔ آصف زرداری کی صحت نازک موڑ پر ہے۔ ان کو ذاتی معالج کی رسائی نہیں دی جارہی۔ یہ بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ ان کے حقوق سلب نہ کئے جائیں۔ نیب کے قانون کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت غیر قانونی طور پر شورٹی بانڈ مانگ رہی ہے۔ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے غیر مشروط نکالا جائے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا نوازشریف کے بارے میں ریاست دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جنرل مشرف کو عدالت لے جاتے ہوئے سی ایم ایچ لے جایا گیا۔ ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر دبئی علاج کیلئے بھجوایا گیا۔ سابق چیئرمین سینٹ نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ضمانت ملنے کے بعد بیرون ملک علاج کیلئے نہیں جانے دیا جا رہا۔ آصف زرداری تاحال سزا یافتہ نہیں۔ آصف زرداری کو نجی ڈاکٹر تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا نواز شریف کا جرم پاکستان سے محبت ہے۔ ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کس کی جان سے کھیل رہے ہیں؟ سینٹ میں ملک کی اقتصادی صورتحال پر بحث کے دوران مشیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کو ہدایت کی کہ نواز شریف اور آصف زرداری کو علاج کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں اور نواز شریف کو علاج کے لیئے باہر بھیجا جائے، کوئی اس معاملے پر سیاست نہ کرے۔
اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان نے ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کیا۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں اپوزیشن کے سینیٹر عبدالرحمان ملک سمیت دیگر 10 اراکین کو کشمیر کی صورتحال پر بحث میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملنے پر واک آئوٹ کیا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سینیٹر ساجد طوری اور سینیٹر فدا محمد خان کو اپوزیشن ارکان کو منانے کے لئے بھیجا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سینیٹر مشتاق احمد کو سینیٹر دلاور عباس کے انتقال پر دعا کرانے کی دعوت دی جس پر انہوں نے مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے 68 طلباء کے وفد نے اجلاس کی کارروائی کا مشاہدہ کیا۔ سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور حضرت محمدؐ کی ولادت کے مہینے میں بھی انہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے، حکومت کو اپوزیشن کی مشاورت سے اس مسئلہ کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔ کشمیر کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ 80 لاکھ کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے، ان پر کرفیو لگا ہوا ہے، کشمیری ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ آج کشمیری عوام اور کشمیر کی قیادت پاکستان کے وزیراعظم کی طرف دیکھ رہی ہے، اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد وزیراعظم کا کشمیر میں کیا کردار رہا ہے، اس بارے میں ایوان کو بتایا جائے۔ سینیٹر طاہر خان بزنجو نے کہا کہ حکومت کو مسائل کے حل کے لئے اپوزیشن سے مشاورت کرنی چاہئے۔ سینیٹر محمد ایوب نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر قیامت گذر رہی ہے، وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران مودی کا چہرہ بے نقاب کیا۔سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ سرینگر میں کشمیریوں کو ربیع الاول کے مہینے میں بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں، حضرت محمدؐ کی ولادت کی تقریبات منانے سے روکا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور انٹرنیٹ پر پابندی کے خاتمے کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان نے ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کیا۔ اپوزیشن نے سینیٹر عبدالرحمان ملک سمیت دیگر 10 اراکین کو کشمیر کی صورتحال پر بحث میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملنے پر واک آئوٹ کیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹر ساجد طوری اور سینیٹر فدا محمد خان کو اپوزیشن ارکان کو منانے کے لئے بھیجا۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھرپور اور موثر انداز میں ہر بین الاقوامی فورم پر اٹھایا ہے، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری جاری ہے، بھارت پر دبائو بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کو سیاست سے بالاتر ہو کر اس معاملہ پر حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ کشمیر کی صورتحال پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ یہ سن کر حیرانگی ہوئی کہ حکومت کشمیر کے معاملے پر چُپ ہے، حکومت کا کشمیر سے متعلق جامع بیانیہ دنیا میں سنا گیا، اب پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات نہیں لگ رہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے اور کشمیری عوام کی نسل کشی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ پہلی دفعہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موثر انداز میں اجاگر ہوا۔ سینیٹر عبدالرحمن ملک نے وزارت خزانہ کے افسران کی ایوان میں عدم موجودگی کی نشاندہی کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزارت خزانہ اور وزارت صحت سمیت دیگر وزارتوں کے افسران ایوان کے اجلاس میں اپنی موجودگی یقینی بنائیں۔ بھارت اور فرانس سے تعلق رکھنے والے سکھ کمیونٹی کے وفد نے ایوان بالا کی کارروائی دیکھی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مہمانوں کی گیلری میں سکھ وفد کا ’’جی آیا نوں سردار جی‘‘ کہہ کر خیرمقدم کیا۔سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ وار جنریشن جاری رکھے ہوئے ہے، صدارتی آرڈیننس کی آئین میں اجازت ہے لیکن اسے ایوان میں پیش کرنا ضروری ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کام قانون سازی ہے، صدر ایسے حالات میں آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں جب قانون سازی ممکن نہ ہو سکے۔ پی ایم ڈی سی کو آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرنے، میڈیا پر پابندیوں اور ملکی معاشی صورتحال سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ پر تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ وار جنریشن جاری رکھے ہوئے ہے، مودی پر مالی دہشت گردی ثابت ہو چکی ہے، ایف ٹی ایف کو ان کے خلاف کارروائی کے لئے خط لکھا، ہمیں دفاع کی بجائے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی کنٹری رپورٹ مسترد کرتا ہوں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کی آئین میں اجازت ہے لیکن اسے ایوان میں پیش کرنا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کام قانون سازی ہے۔ آئین و قانون میں اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کا صدر آئین کے تحت پارلیمان کا حصہ ہے، صدر اس وقت آرڈیننس جاری کرتا ہے جب ایسے حالات ہوں کہ قانون سازی ممکن نہ ہو۔ پی ایم ڈی سی کا آرڈیننس سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ سینیٹر مہرتاج روغانی نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کے سیکریٹری اور رجسٹرار بھاری تنخواہیں وصول کر رہے تھے، اس بارے میں آرڈیننس انتہائی ضروری تھا۔ پی ایم ڈی سی کے سیکریٹری اور رجسٹرار کو تنخواہ کے علاوہ 211 فیصد الائونسز کی ادائیگی کی جاتی تھی، رجسٹرار کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سے زائد تھی۔ سینیٹر کبیر شاہی نے کہا کہ 1962ء میں ایک ادارہ جو بہترین کام کر رہا تھا اور اس میں چاروں صوبوں اور ڈاکٹروں کی نمائندگی موجود تھی، نئے آرڈیننس میں اس سے صوبوں کی نمائندگی ختم کی گئی ہے، پی ایم ڈی سی کے رولز میں کوئی کمی بیشی ہے تو اس کو ایوان میں لایا جائے، اس پر بحث کریں گے، الائونسز اور تنخواہوں کو مدنظر رکھ کر اس کی کارکردگی کو بھی دیکھنی چاہئے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان کو کامران مائیکل کی سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت سے متعلق آگاہ کیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان کو بتایا کہ سینیٹر کامران مائیکل کی سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہو گئی ہے۔ سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے چیئرمین سینیٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ایوان کی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے۔اجلاس (آج) جمعہ کو صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ جمعرات کو ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کشمیر کی موجودہ صورتحال اور دیگر امور پر بحث ہوئی۔

مزیدخبریں