مسلم لیگ ن کی خاتون رہنما مریم نواز نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی فوج کسیاتھ ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے اور یہ ڈائیلاگ عوام کے سامنے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جماعت اور باقی جماعتیں اس قابل ہو چکی ہیں کہ وہ ایک خالص جمہوری اور پارلیمانی نظام کو چلا سکیں؟
قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد 1958 تک چار سویلین سربراہان مملکت اور سات وزرائے اعظم نے اقتدار سنبھالا، اس کے باوجود اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ افراتفری والا دور تھا ۔ اسی دور کے بارے میں ایک بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان میں جس تیزی سے وزرائے اعظم اور حکومتیں بدل رہی ہیں، اس تیزی سے تو میں اپنی دھوتیاں بھی نہیں تبدیل کرتا۔ 1954 میں اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو اپنی کابینہ میں وزیر دفاع مقرر کر دیا۔ تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ایوب خان وزیر دفاع تھے لیکن ان کو فیصلہ سازی کیلئے ویٹو کا اختیار حاصل تھا۔ یہی وزیر دفاع جنرل ایوب خان 27 اکتوبر 1958 کو صدر جنرل سکندر مرزا کو اقتدار سے الگ کر کے خود چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس کے بعد کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل ایڈمنسٹریٹر بنے ۔انھوں نے باقی سیاست دانوں کیساتھ مل کر 73 کا آئین دیا جو اب تک نافذ العمل ہے۔ بھٹو صاحب نے پارلیمانی جمہوریت کی بھی بنیاد رکھی، اپنے مزاج کی وجہ سے وہ پارلیمانی جمہوریت کو اس انداز میں نہ چلا سکے جس کا ملک تقاضا کر رہا تھا۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر اور باہر اپوزیشن کو برداشت نہ کیا۔ ان کے سیاسی مخالفین انھیں فاشسٹ حکمران قرار دیتے رہے تاہم بھٹو کی کئی دوسری کامیابیاں تھیں جن میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا، مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنیوالے ممالک سے رابطوں کو مستحکم بنانا اور پاکستانی مین پاور کو ان ملکوں میں کھپانے کیلئے دروازہ کھولنا شامل تھا۔ مارچ 1977 کے انتخابات میں بھٹو صاحب ان انتخابات کو فیئر اینڈ فری نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے ان کیخلاف ملک گیر تحریک شروع ہوئی، نو سیاسی جماعتوں نے ان کیخلاف اپوزیشن اتحاد قائم کیا۔ ڈائیلاگ بھی ہوا لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا اور 5 جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ یہ مارشل لاء نظام مصطفیٰ کے نام پر لگایا گیا۔ گیارہ سال تک جنرل ضیاء الحق ملک کے حکمراں رہے۔ اسی دور میں مسلم لیگ جونیجو اور مسلم لیگ ن وجود میں آئیں۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں لیکن وہ اکثریت ہونے کے باوجود پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ نہ بنوا سکیں۔ پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف نادیدہ قوتوں کیساتھ مل کر بے نظیر بھٹو حکومت کو غیر مستحکم کرتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب پارلیمانی روایات کو تہس نہس کیا گیا۔ 1990 کے انتخابات میں نواز شریف خود وزیراعظم بنے لیکن ان کی صدر غلام اسحٰق خان اور فوج سے ان بن ہو گئی جس کے نتیجے میں انھیں اڑھائی سال کے اندر اقتدار سے فارغ کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ نادیدہ قوتوں کی حمایت سے پھر الیکشن کیلئے راہ ہموار کی اور وہ وزیراعظم بن گئیں۔ اکتوبر 1996 میں انہی کی پارٹی کے صدر فاروق خان لغاری نے بے نظیر بھٹو حکومت کو ڈس مس کر دیا اور اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرائے۔ ان الیکشنز میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کو اسٹبلشمنٹ کی درپردہ حمایت حاصل تھی ۔ نوا زشریف دو تہائی اکثریت کیساتھ وزیراعظم بن گئے ۔ ان کی یہ حکومت دو سال سے زیادہ نہ چل سکی اور بارہ اکتوبر 1999 کو فوج نے ٹیک اوور کیا اور انھیں معزول کر کے قید میں ڈال دیا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ آرمی چیف کے طیارے کو اغوا کر کے کسی دوسرے ملک بھیجنا چاہتے تھے۔ اسی اثناء میں سعودی عرب کی مداخلت سے شریف خاندان کو جیلوں سے نکال کر سعودی عرب پہنچا دیا گیا۔ جنرل مشرف کی روانگی کے بعد 2018 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے,, میثاق جمہوریت ،،ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس دور میں جمہوری اداروں کو مستحکم نہ کیا گیا۔ پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جو رولز آف دی گیمز دونوں جماعتوں نے نظام چلانے کیلئے طے کئے تھے ان کی خلاف ورزی کی کی گئیں۔ یہ تو طے ہوا کہ الیکشن کمیشن کو ایک آزاد خود مختار اور با اختیار ادارہ بنایا جائیگا لیکن عملاً کوئی ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے فیئر الیکشن کی توقع نہیں رکھتیں۔ احتساب کے ادارے نیب کو از سر نو تشکیل دینے اور قوانین بدلنے پر بھی بات ہوتی رہی اور اس ضمن میں کئی تجاویز بھی زیر بحث آئیں لیکن اس طرف بھی کوئی ٹھوس پیشرفت نہ ہو سکی۔ جمہوری اور پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے اصلاحات کا کوئی جامع پروگرام سامنے نہیں آیا۔ جب بھی کوئی نیشنل ایمرجنسی ہوئی۔ تو فوج کو طلب کیا جاتا رہا۔ سویلین اداروں کو اس قابل نہیں بنایا گیا کہ وہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹ سکیں۔
سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری نظام کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ذہین اور تجربہ کار سیاسی کارکن جن کا دامن بھی داغ دار نہیں ہوتا، انھیں پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے اور وہی لوگ آگے لائے جاتے ہیں جو پارٹیوں پر قابض افراد کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور ان کی خواہش کے مطابق چلتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی طرح جمہوری جماعتیں نہیں۔ انھیں وہ جمہوری کلچر اپنانا چاہیے جو کہ جمہوری ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی بنیاد ہے۔ جب تک ہماری سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہو جاتیں کہ وہ پاکستان میں جمہوری نظام کو جمہوری روایات کے تحت بدعنوانی سے پاک کر کے چلا سکیں اس وقت تک وہ ووٹ کو عزت دو یا سویلین بالادستی کے نعرے لگانے سے ہی پاکستان کو ایک مستحکم جمہوری ملک بنانے کا مقصد حاصل نہیں کر سکتیں۔ اگر اسٹبشلمنٹ سے ڈائیلاگ کرنا ہے تو ضرور اپنا محاسبہ کر لینا چاہیے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش داخلی اور خارجی مسائل ،گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے اور بے روزگاری کے عفریت پر قابو پانے کا کوئی جامع پروگرام رکھتی ہیں؟ اور آخری بات یہ کہ کوئی بھی جمہوری نظام احتساب کے بغیر مکمل نہیں ۔ احتساب کے بغیر جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارے کئی جمہوری ادوار میں عام شہری فوج کے سربراہ کو خط لکھ لکھ کر دعوت دیتے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور ملک کو تباہی سے بچائیں کیونکہ ان ادوار میں اقرباء پروری اور کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھو رہی تھی ۔