"Pakistan Bangladesh Brotherhood!"(3)

معزز قارئین !کل (14 نومبر) کو مَیں نے ستمبر سے نومبر 1981 ء تک آپ سے اپنے دورۂ یورپ اور متحدہ امارات کا تذکرہ کِیا تھا جس میں برطانیہ بھی شامل تھا۔ وہاں کے کئی شہروں میں میرے رشتہ دار اور دوست پہلے ہی سے آباد تھے ، پھر مجھے برطانوی سفارتکاروں نے بھی بہت سی معلومات فراہم کیں لیکن، عوامی سطح پر مجھے گلاسگو میں 1962ء سے آباد ، ’’ پاک پنجاب ‘‘ کے ضلع اٹک میں تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ ) ملک حاکم خان اعوان کے فرزند ، گلاسگو کے ’’بابائے گلاسگو ‘‘ اور پھر’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی نے ( عوامی سطح پر )مجھے گلاسگو میں سَچّے اور سُچّے پاکستانیوں سے ملایا اور ابھی تک ملا رہے ہیں ، پھر مجھے برطانیہ جانے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔  
پھر کیا ہُوا؟ 1963ء سے میرے سرگودھوی ؔ، لہوری ؔاور اسلام آبادی ؔ، دوست ( تحریک پاکستان کے نامور کارکن سیّد اکبر حسین زیدی کے فرزند اوّل )نامور صحافی ، دانشور، بزنس مین ، اور لیبر پارٹی کے سرگرم عہدیدار سیّد علی جعفر زیدی ، (اپنی شریک حیات ) ماہر تعلیمات ، بیگم شمیم زیدی اورماشاء اللہ (اب اِس وقت بہت ہی عاقل و بالغ اور مختلف علوم و فنون میں ماہر بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ ) پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ سیّد اکبر حسین زیدی (مرحوم) کی بہت سے اکابرین پاکستان سے دوستی تھی۔ اُن میں جناب محمود علی بھی شامل تھے ۔24 اگست 2004ء کو جب لاہور میں سیّد اکبر حسین زیدی کا انتقال ہُوا توجناب محمود علی ، اُن کے ورثاء سے تعزیت کے لئے لاہور تشریف لے گئے تھے ۔ 
’’ اوّل خویش بعدہ درویش !‘‘
فارسی کے اِس مقولے کے معنی یہ ہیں کہ ’’ پہلے اپنے عزیز و اقارب سے اور پھر دوسروں سے اچھا سلوک کرنا چاہیے‘‘۔ میرے دونوں دوستوں ’’ بابائے امن‘‘ اور سیّد علی جعفر زیدی کا مشن ہے کہ ’’ پہلے اپنے پیارے پاکستان اور پھر بنگلہ دیش یا دوسرے مسلمانوں کے ساتھ دوستی یا ’’ بھائی چارا ‘‘ (Brotherhood) کے رشتے مضبوط سے مضبوط کئے جائیں‘‘۔ مَیں جب بھی ، برطانیہ گیا ( جاتا ہوں ) تو، مَیں بھی اُن کے اِس منصوبے میں اُن کا ساتھ دیتا ہُوں اور میرے تینوں بیٹے افتخار علی چوہان ، انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان بھی۔ 
’’مسجد داراُلامان لندن !‘‘ 
معزز قارئین ! مَیں نے 2013ء میں ، لندن میں اپنے تینوں بیٹوں اور ایک پوتے حیدر علی چوہان کے ساتھ لندن کے علاقہ  "Collires Wood" کی جامع مسجد( داراُلامان ) میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداء میں نمازِ عید پڑھی۔ نمازیوں میں ،پاکستان ، بنگلہ دیش، بھارت اور فرانسیسی اور جرمن زبان بولنے والے (شاید ) افریقی ممالک کے مسلمان بھی شامل تھے ۔ اُس کے بعد مَیں نے اور میرے تینوں بیٹوں اور چاروں پوتوں ( ذاکر علی چوہان اور احمد علی چوہان ) نے بھی نماز ِعید اُلفطر ، عید اُلاضحی اور نمازِ جمعہ بھی اُسی مسجد میں پڑھی۔ نماز کے بعد جب مَیں بنگلہ زبان بولنے والے نمازیوں سے ’’ گُھٹ گُھٹ جپھیاں ‘‘ ڈالتا ہُوں تو مجھے بہت مزہ آتا  ہے ۔ 
’’ جناب مشرف مشتاق علی ! ‘‘
اسلام آباد سے لاہور جاتے اور آتے جنابِ محمود علی نے ایک بار مجھے اپنے چچا زاد ، جناب مشرف مشتاق علی سے متعارف کرایا تھا ۔ جناب محمود علی کا وِصال 17 نومبر 2006ء کو ہُوا، جب مَیں نے 1981ء سے لندن جانا ، آنا شروع کِیا تو مجھے باری باری میرے تینوں بیٹے جنابِ مشرف مشتاق علی کے گھر لے گئے۔ اُن کی بیگم سلینہ علی پاکستان کے اردو اخبار پڑھ کر اپنے میاں صاحب کو سُناتی ہیں ، جناب مشرف مشتاق علی ، بیگم سلینہ علی ، اُن کا بیٹا ، ڈاکٹر فواد علی اور بیٹی نادیہ بشریٰ علی بھی اپنے تایا جی ( محمود علی صاحب ) کے مشن کو جاری رکھے ہُوئے ہیں ۔ 
’’چودھری غلام حیدر اقبال!‘‘
معزز قارئین ! 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک، تحریک پاکستان کے نامور کارکن گجرات کے موضع ’’بھدر ‘‘ کے (ریٹائرڈ ایس۔ ایس ۔پی) علاّمہ اقبال  ؒ کے اردو اور فارسی کے کلام کے حافظ تھے تو، اُن کا نام ہی غلام حیدر اقبال ؔپڑ گیا ۔ اُنہوں نے لاڑکانہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ملک محمد نواز خان کے ماتحت سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس کی حیثیت سے کام کِیا ، پھر دونوں حضرات میں دوستی ہوگئی۔ ملک محمد نواز خان صاحب 1955ئ۔ 1956ء میں ، گورنمنٹ کالج سرگودھا میں میرے انگریزی کے اُستاد رہے تھے ۔ 26 ستمبر 2009ء کو ، جب میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ کا ولیمہ تھا تو میرے داماد معظم ریاض چودھری کے والد صاحب چودھری محمد ریاض اختر نے جب میرا ملک صاحب سے تعارف کرایا تو ، پھر ہم تینوں کی بہت دوستی ہوگئی۔
مَیں نے ’’ عاشق اقبالؒ  ‘‘(کلام اقبال ؒ کے حافظ ) چوھری غلام حیدر اقبال سے بہت کچھ سیکھا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اُنہوں نے (اپنے بھائیوں کے تعاون سے )مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا یعنی۔ مہاجرین سے حقیقی معنوں میں "Brotherhood" قائم کر لی تھی۔ پیغمبر ِ انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی برکت سے انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکہ میں جو "Brotherhood" قائم ہُوئی تھی اُسے ’’ مؤاخات‘‘ کہتے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان سے پہلے بھی پاکستان کے کئی صدور اور وزرائے اعظم نے پاکستان کو ’’ ریاست مدینہ جدید‘‘ بنانے کا وعدہ / اعلان کِیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا ناموس رسالتؐ کے علمبردار عُلمائے کرام ، پاکستان کے حکمران اور دوسرے سیاستدان متحد ہو کر بالائی طبقے اور پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کے ساتھ "Brotherhood" کرنے کرانے میں کوئی کردار ادا کریں گے؟ ‘‘ (ختم شد  )  
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن