عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کم ہوکر 82 ڈالر فی بیرل ہوگئی
عالمی سطح پر پٹرول کی قیمت میں کمی ہوتی ہے توہمارے کم فہم خوابوں کی دنیا میں رہنے والے عوام فوری طور پر توقع لگا لیتے ہیں کہ اب ہماری حکومت ملک میں بھی پٹرول کی قیمت میں کمی کرے گی مگر افسوس ایسا کچھ نہیں ہوتا اور یہ خواب خواب پریشاں ہی رہتا ہے۔ پس معلوم ہوا عالمی سطح پر ہماری حکومت نے ایک غیبی فارمولا طے کررکھا ہے کہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہو تو ہمارے ہاں بھی اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اگر کسی چیزکی قیمت میں کمی ہو تو کیا مجال ہے کہ ہماری حکومت اس چیز کی قیمت میں ایک پیسہ بھی کمی کا اعلان ہی کردے۔ اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ اب عالمی منڈی میں کمی کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ اگر حکومت چاہے تو عوام کو ریلیف دے سکتی ہے مگر بات وہی ہے کہ؎
وہ کسی طرح ہمارے نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ہمارے حکمران عوامی مسائل سے یا تو آگاہ نہیں ہوتے اگر ہوتے بھی ہیں تو شاید بے وفا محبوب کی طرح عاشق صادق عوام کو خون کے آنسو رلانے سے باز نہیں آتے۔ خود اپنے محلات میں چین کی نیند سوتے ہیں اور ان کو اقتدار میں لانے والے بے چارے انگاروں پر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو چاہئے کہ تیل کی قیمت میں عالمی کمی کا فائدہ عوام تک بھی پہنچائے صرف خود منافع کمانے کی بجائے تیل کی قیمت میں کمی لائے۔ حاسدین تو کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کا ایجنڈا ہے کہ تیل کی قیمت کم از کم 200 روپے فی لٹر تک پہنچائی جائے گی تاکہ لوگ ایک بار پھر سائیکل اور پیدل سفر کرنے کی عادت اپنا کر اپنی صحت بہتر بنا سکیں…
٭٭٭٭٭
پاکستانی کرکٹ ٹیم کا بنگلہ دیش میں گرمجوشی سے استقبال
ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی عمدہ کارکردگی نے اپنوں اور غیروں سب کو متاثر کیا ہے۔ پوری دنیا ان کے اچھے کھیل کی تعریف کررہی ہے۔ بنگلہ دیش والے کون سے غیر ہیں وہ تو پہلے بھی ہمارے اپنے تھے۔ یہ تو نفرتوں کی سیاست نے انہیں ہم سے دور کردیا ورنہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں مل کر پاکستان ہی کہلاتے تھے۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی کرکٹ بہت کھیلی اور پسند کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم دنیا کی اچھی ٹیموں میں شامل ہے۔ اب پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش میں ٹی 20 سیریز کھیلے گی۔ دونوں ٹیمیں اس سیریز کیلئے پرجوش ہیں۔ شائقین کو اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ پاکستانی ٹیم اس وقت بہترین فارم میں ہے۔ بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کو ہوم گرائونڈ کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔ یوں دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ ہماری ٹیم کا بنگلہ دیش میں جس طرح گرم جوشی سے استقبال ہوا اس سے قبل نہیں ہوا تھا۔ شاید بنگالی بھی بھارت کو عبرتناک ، حیرتناک اور شرمناک شکست دینے پر پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت خوش ہیں۔ آہستہ آہستہ ہی سہی بالآخر پاکستان او ربنگلہ دیش کے درمیان سردمہری ختم ہونے لگی ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملک ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں۔ اگر آج فیض زندہ ہوتے تو انہیں بہت زیادہ ملاقاتوں کا شکوہ نہیں کرنا پڑتا۔ خون کے دھبے دھلنے کیلئے کسی طویل مشقت یا طویل موسموں کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔ اب موسم بدل رہا ہے اہل جنوں بے باک ہورہے ہیں۔ بھارت کی ہندوتوا نے بہت سے چہرے بے نقاب کردیئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں اسلامی ناموں کو تبدیل کرنے کی مکروہ مہم جاری
جی ہاں اب بھارت کی محتسب ہندو حکومت اور تو کچھ کر نہیں سکتی۔ مسلمانوں کی نشانیاںان کے ایک ہزار سال کی حکمرانی کے نشان بھارت کے چپے چپے پر موجود ہیں۔ مودی سرکار ختم ہوجائے گی مگر یہ نام اور نشانیاں مٹا نہیں پائے گی۔ اب بھوپال میں حبیب گنج ریلوے سٹیشن کا نام حکومت نے تبدیل کرکے اپنے سینے میں لگی آگ ٹھنڈی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی شہروں اور قصبوں کے نام جو مسلمان صوفیا یا حکمرانوں کے نام پر تھے ،تبدیل کئے جاچکے ہیں مگر کیا کوئی بھی بھارتی حکومت ہندوستان سے مسلمانوں کی ایک ہزار سال کی فتوحات اور حکمرانی کی تاریخ کو کھرچ سکے گی مٹا سکے گی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ خود دہلی جو بھارت کا دارالحکومت ہے راجدھانی ہے جسے ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے۔ اس پر صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی وہاں قدم قدم پر مسلمانوں کی یادگار یں، مقبرے، مزارات ، محلات موجود ہیں۔ خو د بھارتی وزیراعظم مودی جس تاریخی لال قلعے کے باہر بھارت کے یوم جمہوریہ پر یوم آزادی پر فوجی ہڑیہ اور عوامی اجتماع کے سامنے ترنگا لہراتا ہے۔ وہ بھی مسلمانوں کی تعمیرکردہ ہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کی رہائش گاہ تھی یہاں پر بیٹھ کر وہ پورے ہندوستان پر راج کرتے تھے۔ کیا مودی میں یا کسی اور انتہاپسند ہندو حکمران میں ہمت ہے کہ وہ اس لال قلعے کا ہی نام تبدیل کرکے دکھائے۔ اب حبیب گنج ریلوے سٹیشن کا نام ’’رانی کمارپتی‘‘ رکھنے سے کیا ہوگا…
٭٭٭٭٭
ہماری فصلوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے: شوکت ترین
اگر ایسا ہے تو پھر یہ ملک میں فاقہ کشی کا مقابلہ کیوں جاری ہے ۔قدم قدم پر مفلسی کیوں اجناس سے بھرے گوداموں کے سامنے سسکتی ہوئی دم توڑتی ہے جو زرعی ملک نقد آور اجناس میں خودکفیل ہو وہاں گندم، چاول، چینی کا کال کیوں پڑا نظر آتا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مشیر خزانہ ایسے بیانات دے کر دل پشوری کررہے ہیں ورنہ جہاں کبھی اجناس کی ایسی قلت نہ تھی اب مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں ۔کیا زمین کم ہوگئی ہے یا موسم بدل گئے ہیں۔ سب کچھ وہی ہے بس ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ، بھرے ہوئے گوداموں کے باوجود بقول حکومت بمپرفصلوں کے باوجود ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہے۔ ایسا کیوں ہے ریکارڈ اضافے کے باوجود ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگ حسرت و یاس کی تصویر بنے آٹا دال چینی، چاول اور گھی کو دیکھ رہے ہیں۔ کسی میں حوصلہ ہی نہیں ہے کہ وہ مہنگے داموں بکنے والی ان اشیائے ضروریہ کو حسب ضرورت خرید سکے، دو کی جگہ ایک روٹی کھائی جانے لگی ہے یہی حکمران چاہتے تھے اور وہی ہورہا ہے۔ شوکت ترین صاحب خدا جانے کس ترنگ میں ریکارڈ پیداوار میں اضافہ کی بانگ لگا رہے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہر چیز کی قیمت میں کمی کیوں نہیں لائی جارہی۔ عوام کو ریلیف کیوں نہیں دیا جارہا انہیں کیوں بھوکا مارا جارہا ہے ۔یہ تو ہمارے اپنے عوام ہیں انہیں زندہ درگور ہونے سے بچایا جائے اور ریکارڈ فصلوں کے ثمرات عوام تک بھی پہنچائے جائیں۔
٭٭٭٭٭