اکادمی ادبیات ادیبوں کی فلاح و بہبود اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں مثبت کردار ادا کرنے والا ایک اہم ادارہ ہے جو گاہے بگاہے شاعروں اور ادیبوں کے لیے تقریب بہر ملاقات کا اہتمام بھی کئے رکھتا ہے۔ملتان میں اساتذہ کرام، ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کی ایک تقریب میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے اسلام آباد میں اکادمی کے زیراہتمام پاکستان کے پہلے ایوانِ اعزاز (Hall of Fame) کی تعمیر کی جو نوید سنائی تھی انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے اس اہم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے اور 4 نومبر کو فیض احمد فیض آڈیٹوریم میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے نہ صرف پاکستان بھر سے آئے ہوئے نمائندہ اہل قلم سے خصوصی خطاب کیا بلکہ اس Hall of Fame کا افتتاح کر کے پاکستان کے ان مایہ ناز ادیبوں اور شاعروں کو خراج تحسین بھی پیش کیا جن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے صدر دفتر میں Hall of Fame ایوان اعزاز بنایا گیا ہے۔ حفیظ جالندھری، احمد فراز، حبیب جالب، فیض احمد فیض، منیر نیازی، سعادت حسن منٹو سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں سے معروف ادیبوں اور شاعروں کی خوبصورت تصاویر و تعارف کے ساتھ ایوان اعزاز کو سجایا گیا ہے جس میں چاروں صوبوں کے معروف ادیبوں کو نمایئندگی دی گئی ہے جو قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ افتتاح کے موقع پر وفاقی وزیر شفقت محمود بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ تقریب کی نظامت بہت خوبصورت انداز میں ڈاکٹر صوفیہ خشک نے انجام دی جبکہ اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے کرونا کے دوران اکادمی کی کارکردگی آن لائن مشاعروں قومی اور علاقائی زبانوں کے فروغ اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کیلئے کئے جانے والے منصوبوں پر بریفنگ بھی دی جسے وزیراعظم عمران خان نے سراہتے ہوئے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ اپنی پہلی باقاعدہ گفتگو کو خوش آئند قرار دیا انہوں نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی عزت و تکریم اپنے قومی ہیروز کی طرح کرتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر نہایت مدلل انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے ادیب، شاعر اور سکالر اصل راستہ بھول گئے تو پھر قومی سطح پر بھی ہمارے بھٹکنے کا امکان ہے۔ اپنے کلچر، تہذیب اور ثقافت کو نمایاں کرنے اور بھارت سمیت دیگر ممالک کی تہذیبی اور ثقافتی بالادستی ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے اکابرین اور ہیروز کی نہ صرف پذیرائی کرنا ہو گی بلکہ محسن انسانیت اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر بھی عمل کرنا ہو گا اسی لیے ان کی حکومت نے رحمۃ اللعالمین اتھارٹی بھی قائم کی ہے اور قومی سطح پر یکساں نظام تعلیم رائج کر دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کالم نگاروں اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ عوام میں اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے اور برائی کو تسلیم نہ کرنے کیلئے اپنا قلم استعمال کریں انہوں نے کہا کہ ہمارے فلم ساز اور لکھاری اسلامی روایات و اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اپنی قومی شناخت اور تشخص کو بھی اجاگر کریں کیونکہ سوشل میڈیا اور موبائل کی یلغار سے ہم اپنی نسل نو کو اسی وقت محفوظ رکھ سکتے ہیں جب ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور انہیں کتاب کلچر کی طرف راغب کریں اور اپنی قومی تاریخ اور اکابرین کی اصل شناخت سے روشناس کرائیں۔ مغرب کی چکا چوند اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ہمیں اسلام کے ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اپنے خاندانی نظام کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی انارکی، فحاشی اور خواتین و بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی اس بات پر تمام اہل قلم نے کھل کر داد دی کہ پاکستان میں کرپشن کرنے اور کرپشن کے الزامات سے بری نہ ہونے والے سیاست دانوں کو میڈیا میں پذیرائی ملتی ہے اور اسمبلی میں خطاب کا موقع ملتا ہے جبکہ مغرب اور مہذب معاشرے ایسے افراد کا ہر فورم پر بائیکاٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں سے ہاتھ ملا کر وہ ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لہٰذا ہمارا اہل قلم طبقہ بھی اپنی فکر و سوچ سے معاشرے میں ہونے والے ایسے واقعات کو نمایاں کرے تاکہ اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کی واضح لکیر نظر آ سکے۔ اگر معاشرے میں اچھے لوگوں کا ساتھ دیا جاتا رہا تو پھر سینیٹ میں پیسے کے بل بوتے پر ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کا بھی راستہ روکا جا سکے گا اور ملک کا نظام بھی صحیح راہ پر چلتا نظر آئے گا۔