’’داستان عزم ‘‘یہ کتاب محسن پاکستان اور عظیم ایٹمی سائنس ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیشک اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن تاقیامت ان کا نام اور دفاع پاکستان کے حوالے سے ایٹمی دھماکوں کا عظیم کارنامہ روز روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا رہے گا۔ڈاکٹر خان کیا تھے اور انہوں پاکستان کے لیے کیا عظیم کارنامہ انجام دیا ،یہ سب کچھ پاکستانی قوم کے ہر شخص کو ازبرہے ۔ڈاکٹر خان نے بیشمار واقعات کو اپنی خود نوشت میں شامل کیا ہے جس کا علم کم از کم مجھے تو نہیں ہے ۔وہ لکھتے ہیں 1984ء میں جنرل ضیاالحق نے ’’انڈیا ٹو ڈے ‘‘کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ ایٹم بم بنانا ہمارے لیے مشکل نہیں ۔جب چاہیں ہم بنالیں گے تو میرے لیے بات کھل کر کرنا آسان ہوگیا۔ایسے ہی ایک لیکچرکے دوران سٹاف کالج( جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے) کے چند افسران نے مجھ سے بالواسطہ سوالات کیے تو میں نے پوچھا کہ یہاں کوئی غیر ملکی تو نہیں ہے۔ کالج کے کمانڈنٹ جنرل سید تنویر نقوی نے بتایا کہ یہاںکوئی غیرملکی نہیں ہے۔درحقیقت لوگ میری زبان سے ہماری ایٹمی اور دفاعی صلاحیت کے بارے میں سننا چاہتے تھے۔میں نے حاضرین سے کہا کہ آج میں کھل کر یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس اتنے ایٹم بم ہیں کہ ہم ہندوستان کے ہر بڑے شہر کو کم از کم پانچ مرتبہ صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں ۔اس پر ہال میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور تالیوں کی گونج دیر تک جاری رہی ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’6اپریل 1998ء کی صبح ساڑھے چھ بجے ایٹم بم لے جانے والے غوری میزائل کا تجربہ کرنے کے لیے میں اپنے رفقائے کار کے ہمراہ ٹلہ جوگیاں پہنچا۔ تیاریاں مکمل تھیں چنانچہ 7بج کر23منٹ پر بٹن دباتے ہی غوری میزائل چند سیکنڈوں میں 360کلومیٹر خلامیں گیا ،اس کا وار ہیڈ علیحدہ ہوا اور بلوچستان میں 1300کلومیٹردور اپنے ٹارگٹ کے قریب جا گرا۔وہاں پہلے سے فوج کا ایک دستہ موجود تھا جس نے اپنی تحریری رپورٹ پیش کردی۔جب اس کارنامے کی اطلاع وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو دی گئی تو انہوں نے غوری میزائل فائرکرنے اور ٹارگٹ پر گرنے کی ویڈیو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا، وزیراعظم کے حکم پر وہ ویڈیو پی ٹی وی پر دکھا دی گئی، پھرمجھے اپنے ساتھ لیکر نوازشریف نیشنل ڈیفنس کالج پہنچ گئے اور وہاں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے غوری میزائل کے کامیاب تجربے کی خوشخبری سنا دی ۔پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔اسلامی ممالک کے سربراہوں نے نوازشریف کو مبارک باد دی۔ہمارے میزائل کے ٹیسٹ نے ہندوستان کے جارحانہ عزائم کو ٹھنڈا کردیا کیونکہ یہ میزائل موبائل لانچر پر نصب تھا۔اوراسکے ذریعے ہندوستان کے تما م اہم ہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔اس کے ایک ماہ بعد جب ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تو دونوں ممالک کے درمیان آئندہ بڑی جنگ کے خطرات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔ہم نے مشہور زمانہ اینٹی ٹینک میزائلز بکتر شکن بھی تیارکیے۔جو چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے سے مخالف فوج کے ٹینکوں کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔ہم نے یہ ہزاروں میزائل پاک فوج کو دیئے اور نہایت نازک موقع پر بوسنیا کے مسلمانوں کو بھی بھجوائے جن کی وجہ سے انہوں نے سراجیوو کا کئی سال سے محاصرہ کرنے والے اور قتل و غارت گری کرنے والے سرب دہشت گردوںکو چند دنوں میں بھگا دیا ۔بوسنیا کے آرمی چیف نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ صرف تین دنوں میں انہوں نے سربوں کے 82ٹینک تباہ کردیئے۔میری اس مدد کی وجہ سے حکومت بوسنیا ہمیشہ میری بے حد ممنون و احسان مند تھی‘‘۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’’28مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے چند ہفتوں بعد سعودی عرب کے وزیر دفاع پرنس سلطان ابن سعود اور ان کے صاحبزادے جنرل خالد بن سلطان ابن سعود وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مبارکباد دینے پاکستان تشریف لائے۔ نواز شریف ان شاہی مہمانوں اور پاکستان کی تینوں افواج کے سربراہوں کواپنے ساتھ لے کر کہوٹہ تشریف لائے ، کئی گھنٹے وہاں ہمارے ساتھ گزارے۔شاہی مہمانوں کے کہوٹہ آنے کا معاملہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے خوب اچھا لا تھا ‘‘۔ قصہ مختصرایسے ہی بیشمار اور حیرت انگیز واقعات ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت میں موجود ہیں جو واقعی ہماری نوجوان نسل کو پڑھنے چاہئیں ،ان تمام اہم واقعات تک رسائی کتاب کو مکمل پڑھنے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔