اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں ٹرائیکا پلس کا اجلاس

 چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com

افغانستان کی صورتحال پر اسلام آباد میں ہو نے والا’’ٹرائیکا پلس‘‘اجلاس جہاں افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے مثبت پیغام ہے وہاں پاکستان کی میزبانی میں اجلاس کا انعقاد افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کا بھی عکاس ہے،ایسے حالات میں جب افغانستان معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے،عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ افغانستان کے منجمدوسائل تک رسائی اورہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے،ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں د ہرانے سے بچے اور مثبت روابط جاری رکھے۔’’ٹرائیکا پلس اجلاس میں امریکہ اور افغانستان کے اہم ہمسائیہ ممالک پاکستان،چین اور روس نے جہاں یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ حالات میں عالمی برادری کی طرف سے افغانستان کی امداد کے لیے آگے آنا انتہائی ضروری ہے وہیں اجلاس میں افغانستان میں سنگین انسانی اور معاشی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار اور افغانستان کے عوام کی مدد کا اعادہ کیا گیا ہے،طالبان حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام شہریوں کو برابری پر مواقع فراہم کیے جائیں اور خواتین کے حقوق بحال رکھے جائیں تاکہ خواتین افغانستان کے تمام سماجی معاملات میں حصہ لے سکیں۔اسی طرح سے اجلاس کے شرکاء نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ طالبان دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔طالبان سے توقع ظاہر کی گئی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک، خطے اور دینا کے دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ میزبان پڑوسی ملک پاکستان، چین اور روس پرمشتمل ٹرائیکا سمیت امریکہ نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے موجودہ انسانی اور معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کیا گیا۔اسلام آباد میں ٹرائیکاپلس کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق افغانستان میں سنگین انسانی اور معاشی صورت حال پائی جاتی ہے۔افغانستان کی خودمختاری،آزادی اور سرحدی  امورسے متعلق اقوام متحدہ کی مختلف قرار دادوں پر عمل کو یقینی بنیا جانا ضروری ہے۔ اجلاس میں افغانستان کو دہشت گردی اور منشیات  جیسے جرائم سے پاک کرنے اور خطے کی ترقی اور استحکام میں شامل کرنے پر زور دیا گیا۔ٹرائیکا پلس نے طالبان کی جانب سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو اجازت دینے کا خیرمقدم کیا اور تیز رفتار سے ترقی، ملک بھر میں ایئرپورٹ کی سہولت کے لیے انتظامات کی حوصلہ افزائی کی گئی جس سے تجارت کو فروغ ملے گا اور ملک میں پیدا ہونے والے بحران پر قابو میں پانے میں مدد ملے گی۔اعلامیے کے مطابق طالبان کو افغانستان کے مقامی لوگوں کے ساتھ کام کرنے اور جامع حکومت کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ تمام شہریوں کو برابری پر مواقع فراہم کیے جائیں اور خواتین کے حقوق بحال رکھے جائیں تاکہ خواتین عہد حاضر کے افغانستان کے تمام سماجی معاملات میں حصہ لے سکیں۔۔افغانستان میں تعلیم نسواں کے سلسلے میں ملک بھر میں تعلیم تک رسائی دینے کے برابر مواقع فراہم کرنے کیلئے طالبان پر زور دیا گیا کہ ان کی حکومت اس حوالے سے اقدامات میں تیزی لائے۔اجلاس میں عالمی برادری کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر افغانستان کی امداد کا بھی خیر مقدم کیا گیا اور معاشی بحران کے حوالے سے تشویش کا بھی اظہار کیا گیا۔طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ امدادی کاموں کے لیے بلاتفریق مواقع فراہم کریں جس میں خواتین امدادی کارکنان کو بلاروک ٹوک امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سیاس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ ایسے پروگرام ترتیب دیں جس سے عالمی برادری کے عزم پر بھی عمل کیا جاسکے۔
ٹرائیکا اجلاس میں شامل نمائندوں نے افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور طالبان سے کہا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے اپنے روابط ختم کردیں اور واضح طریقے سے ان کا خاتمہ کریں۔دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔طالبان سے توقع ظاہر کیا گیا کہ وہ افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک، خطے اور دینا کے دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے نہیں دیں گے۔اجلاس میں طالبان سے کہا گیا کہ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں اور افغانستان کے عالمی سطح پر  طے شدہ امور ، وعدوں اور معاہدوں کو جاری رکھیں، عالمی سطح تسلیم شدہ بین الاقوامی قانون اور بنیادی انسانی حقوق اور افغانستان میں غیرملکی شہریوں اور اداروں کے حقوق کا احترام کریں۔اجلاس میں بینکنگ کے نظام تک رسائی کو آسانی بنانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کی تشویش کا بھی اعتراف کیا گیا۔ٹرائیکا پلس اجلاس میں عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے بنیادی اقدامات کریں اور کووڈ-19کے خلاف مدد بھی جاری رکھیں۔
وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا تین سے زائد ممالک کے اس اجلاس سے افتتاحی خطاب میں کہنا تھا کہ ٹرائیکاپلس کے نویں اجلاس میں شرکت کے لئے رکن مالک کے نمائندوں کی اسلام آباد آمد ایک پرامن، مستحکم، متحد، خود مختار اور خوش حال افغانستان دیکھنے کی مشترکہ خواہش کی عکاس ہے۔  ٹرائیکا پلس کا اجلاس تین ماہ کے وقفے سے دوبارہ ہورہا ہے۔ اس عرصے کے دوران افغانستان بنیادی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ کابل میں ایک نئی انتظامیہ فعال ہوئی ہے؛ عبوری کابینہ کی تشکیل ہوچکی ہے اور عالمی برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر انخلاہوا ہے خوش کن پہلو یہ تھے کہ خوں ریزی نہیں ہوئی، مہاجرین کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے جو خوفناک اندیشے لاحق تھے، ان خدشات سے محفوظ رہے، مستقبل کے اقدام پر طالبان کی طرف سے حوصلہ افزا اعلانات ہوئے اور اہم ترین امر یہ ہے کہ عالمی برادری نے رابطہ استوار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ رابطہ نہ صرف بحال رہنا چاہئے بلکہ کئی وجوہات کی بناپر اس میں اضافہ ہونا چاہئے۔ تاکہ پھر سے یہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو، کوئی بھی دوبارہ ایسا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا، معاشی انحطاط وانہدام کا بھی کوئی خواہاں نہیں، جس سے عدم استحکام بڑھے گا ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر  دہشت گرد عناصر کو موثر انداز سے نمٹاجائے اور ہم سب کی خواہش ہے کہ مہاجرین کے ایک نئے بحران سے بچا جائے۔ افغانستان سے متعلق ہم سب کی تشویش وفکر مندی مشترک ہے جبکہ وہاں امن واستحکام ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ ان سب کا حصول ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس صورتحال میں ٹرائیکا پلس نے نمایاں اہمیت حاصل کرلی ہے اور اس کا کلیدی کردار ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔ہم پراعتماد ہیں کہ ٹرائیکا پلس کے نئی افغان حکومت سے امور کار، امن واستحکام کے فروغ، پائیدار معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے لئے گنجائش مسدود ہوتی چلی جائے گی۔افغانستان اس وقت معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ عالمی مالی امداد کے نہ ہونے سے تنخواہوں کی ادائیگی تک میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، چہ جائیکہ ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت ممکن ہوسکے۔ عام آدمی بدترین قحط کے شدید اثرات کا شکار اور اس سے متاثر ہے۔ صورتحال میں مزید تنزلی نئی انتظامیہ کی حکومت چلانے کی استعداد کو بری طرح محدود کردے گی۔ انہوں نے کہا کہ لہذا ناگزیر ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تحرک کرے۔صحت، تعلیم اور شہری خدمات (میونسپل سروسز)کی فراہمی کو فوری توجہ درکار ہے۔ افغانستان کو اپنے منجمد وسائل کی رسائی سے معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کی ہماری کوششوں کو تقویت ملے گی اور افغان معیشت استحکام اور پائیداری کی طرف گامزن ہوپائے گی۔ اسی طرح اقوام متحدہ اور اس کے اداروں پر زور دیا جائے کہ وہ عام افغان شہریوں تک رسائی کے طریقے تلاش کریں اور اس صورتحال میں ان کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام قریب ترین ہمسائے کے طورپر پاکستان کے براہ راست مفاد میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان مشترکہ ورثہ اور تاریخ رکھتے ہیں۔ ہم افغانستان کے ہر طبقہ و نسل کو ملک کی حتمی منزل کے لئے اہم تصور کرتے ہیں۔قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم نے گذشتہ چار دہائیوں میں، مہاجرین، منشیات اور دہشت گردی کی صورت میں اس تنازعے اور عدم استحکام کا براہ راست نقصان اٹھایا ہے۔
 موجودہ صورتحال  اس طویل تنازعے اور لڑائی کے خاتمے کا ایک نادر موقع ہے۔ اس سمت میں ہم نے پہلے ہی متعدد اقدامات کئے ہیں تاکہ افغانستان میں عام آدمی کو سہولت ملے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں کسانوں کی مدد کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنی قرار دے دیا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی ہو نی چاہیئے پیدل آمدورفت کی سہولت دی گئی ہے،ہم نے کورونا وبا کے دوران سرحد کو کھولے رکھا بیماروں اور علاج کے لئے آنے والوں کو ان کی آمد پر ویزا کی فراہمی کی سہولت دی گئی ہے 15اگست کے بعد سے میں نے مختلف ممالک کے اپنے متعدد ہم مناصب کی میزبانی کی۔ ہم افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری علاقائی پلیٹ فارم کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کی تاکہ تشویش کے مشترک نکات اور مواقعوں پر بات چیت ممکن ہوسکے۔ دو اجلاسوں سے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں اور مستقبل کی راہ عمل کی حامل دستاویزات میسرآئی ہیں۔ پاکستان اور بیرون ملک ان تمام رابطوں کے دوران عالمی برادری اور نئی افغان حکومت کو ہمارا ہمیشہ یہ پیغام رہا ہے کہ رابطے استوار رکھے جائیں اور باہمی اتفاق سے آگے کی راہ تلاش کی جائے ۔گزشتہ ماہ کابل کا میرا  دورہ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ اس سے ہمیں یہ موقع بھی میسر آیا کہ طالبان قیادت کو ہم اپنی رائے سے آگاہ کریں اور عالمی برادری کی ا ن سے توقعات کو اجاگر کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان رابطے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں تسلیم کرے اور ان کی مدد کرے۔لہذا یہ کلیدی امر ہے کہ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں دوہرانے سے بچے اور مثبت رابطہ جاری رکھے۔اپنے حصے کے طور پر میں امن، ترقی اور خوش حالی کے راستے پر افغانستان کی مدد کرنے کے وزیراعظم  پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں۔ 
وزارتِ خارجہ میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے "ٹرائیکا پلس" اجلاس میں شرکت کیلئے آئے ہوئے نمائندگان خصوصی کے ساتھ غیر رسمی گفتگو بھی کی، ان نمائندگان خصوصی میں پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ایمبیسڈر محمد صادق،امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان، ڈپٹی اسٹنٹ سیکرٹری،تھامس ویسٹ، روس کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، ضمیر کابلوف، چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان،یاو  یاو  یانگ شامل تھے۔،وزیر خارجہ نے "ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کیلئے آئے ہوئے نمائندگان خصوصی کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا اور افغانستان میں ابھرتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے، لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے" ٹرائیکا پلس "کے اجلاس کو انتہائی اہمیت کا حامل  قرار دیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا ٹاک کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان نے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے،پاکستان نے افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک سمیت روس کو بھی مدعو کیا اور اب ہم چین کی طرف جا رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو ہم آپس میں باتیں کر رہے ہیں،ہم کس کو قائل کر رہے ہیں جس کو قائل کرنا ہے جب تک وہ میز پر نہیں ہوں گے تو یہ  محض گپ شپ کے مترادف ہے،اس لئے  اگلی نشست میں طالبان کو ہونا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ بیجنگ اجلاس میں طالبان کو دعوت د یں گے تاکہ انکے تحفظات کو بھی سنا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور انکے تحفظات ہم دنیا کے ساتھ شیئر کریں گے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو اسکے گلوبل اور علاقائی فوائد ہوں گے،اور اگر بگاڑ پیدا ہوا،پاکستان متاثر تو ہوگا لیکن آپ بھی بچ نہیں پائیں گے،یہ کہنا کہ یورپ دور ہے اور محفوظ ہے۔انہوں نے کہا کہ مت بھولئے اور تاریخ سے سبق سیکھئے،ہم نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے۔
ادھرپاکستان کے دورے پر آئے ہوئے، افغانستان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ وزارت خارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات کی۔وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان، مشیر خزانہ شوکت ترین، مشیر تجارت رزاق داؤ د بھی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ ان مذاکرات میں شریک تھے،سیکرٹری خارجہ سہیل محمود،افغانستان کیلئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی ایمبیسڈر محمد صادق،افغانستان میں پاکستان کے سفیر ایمبیسڈر منصور احمد خان اور وزارت خارجہ کے سینئر افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے، پاکستان،قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں گزشتہ 40سال سے جاری جنگ و جدل اور بدامنی سے شدید متاثر ہوا ہے۔جسے 30لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرنا پڑی ہے، افغانستان کو معاشی و انسانی بحران سے نکالنے کیلئے، پاکستان مسلسل عالمی برادری سے فوری امداد اور مثبت کردار کا تقاضا کرتا آ رہا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی  نے کہا کہ پاکستان،محدود وسائل کے باوجود، افغان بھائیوں کی انسانی معاونت، ادویات و خوراک کی فراہمی کیلئے حتی المقدور کاوشیں بروئے کار لا رہاہے۔ وزیر خارجہ نے اس نازک موڑ پر افغانستان کے اندر اور باہر امن مخالف عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی تاکید کی۔انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اگلے اجلاس میں افغانستان کی عبوری حکومت کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا جائے، وزیر خارجہ نے افغان وفد کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی روابط، تجارتی راہداری میں فراہم کردہ سہولت اور انسانی معاونت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا،افغانستان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کیلئے کردار ادا کرنے پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔

ای پیپر دی نیشن