رواں ہفتے کے بھارتی اخبارات اور میڈیا کا سرسری سا بھی جائزہ لیںتو کئی دلچسپ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔6نومبر کو بھارتی صدر نے کئی لوگوں کو خصوصی انعامات سے نوازا،معروف بھارتی اداکارہ ’’کنگنارناوت‘‘بھی انہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہے۔موصوفہ نے پدم شری لینے کے فورا بعد بھارتی صدر کی موجودگی میں گوہر افشانی کی اور کہا کہ 2014میں مودی کے حکومت سنبھالنے سے پہلے تو بھارت کو ملنے والی ’’آزادی‘‘ تو محض بھیک تھی یہ تو مودی جی کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے اس دیش کو عالمی گرو بنایا۔اس موقع پر حاضرین نے خوب تالیاں بجا کر موصوفہ مو داد دی، البتہ خود بھارت کا ہی ایک بڑا حلقہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اس خاتون نے جس طرح سے بھارت کی توہین کی ہے اس کے پیش نظر اداکارہ سے نہ صرف پدم شری کا ایواڈ واپس لیا جائے بلکہ اُس کے خلاف بھارت سے غداری کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جائے۔دوسری جانب بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید کے خلاف ہندوستانی میڈیا میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے کیوں کہ اُنہوں نے ہندوتوا ،بوکوحرام اور داعش کو ایک جیسا قرار دیا ہے ۔واضح رہے کہ سلمان خورشید اپنی تحریر کردہ ’’Sunrise Over Ayodhya‘‘کی تقریب رونمائی کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔اس حوالے سے بھارت کے سابق وزیر داخلہ’ چیدمبر ‘اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ’ڈگ وجے سنگھ‘ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔اس تقریب کے بعد سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے سبھی حلقے سلمان خورشید کی بابت جس طرح کی زبان استعمال کر رہے اسے احاطہ تحریر میں لانا بھی ممکن نہیںاور ہندو انتہائی پسندی کا زہر اپنے عروج پر ہے۔اسی حوالے سے محبوبہ مفتی نے بھی کہا ہے کہ سلمان خورشید نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ہندوتو ا اور داعش ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔واضح رہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی 15نومبر کو بھوپال کا دورہ کر رہے ہیں اور اس موقع پر وہ بھوپال کے تاریخی ریلولے سٹیشن کا دورہ بھی کریں گے جس کا پرانا نام حبیب گنج ہے جو کہ اب تبدیل کرکے ’’رانی کملاپتی‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔اس بات کا اعلان مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ نے باقاعدہ ٹوئیٹ کرکے کیا۔
یہاں یہ امر بھی انتہائی قابل ذکر ہے کہ بھوپال سے سادھوی پرگیاٹھاکر لوک سبھا کی رکن ہے جو مالی گائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی میں باقاعدہ طور پر ملوث ہے جس میں تقریبا 100سے زائد پاکستانی مسافر جلا دئیے گئے تھے۔بڑھتی ہندوتوا کا یہ عفریت آنے والے دنوں میں جانے کیا کیا گل کھائے گا ۔اس کے باجود عالمی رائے عامہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے نام پر رکھے گئے مزید شہروں کے نام تبدیل کردئیے جائیںگے۔اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 13نومبر کو بھارتی صوبے مہاراشٹرا کے مقام ’گڑھ چرولی‘ میں بھارتی فوج نے دعوا کیا ہے کہ انہوں نے 30کے قریب نکسل چھاپہ ماروں کو مار دیا ہے۔آزاد مبصرین اس بھارتی دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے اکثر علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں اور لگتا یہی ہے کہ آنے والے چند برسوں میںبھارت اپنی موجودہ شکل میں اگر برقرار رہ پایا تو یہ کوئی معجزہ ہی ہو گا۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 13نومبر کو ہی بھارتی صوبے منی پور میں ایک بھارتی کرنل سمیت 7افراد ایک جھڑپ میں مارے گئے جن میں ایک خاتون اور بچہ بھی شامل تھا یوں اس تمام پس منظر کا جائزہ لیں تویہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی ریاست میں دھیرے مگر تسلسل سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔اس ساری صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دہلی کا حکمران ٹولہ تاریخ سے کچھ سبق سیکھنے پر تیار نہیں اور ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کا بدترین سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف اپنی سبھی اقلیتوں اور اچھوت ہندووں پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔کوئی روز ایسا نہیں جاتا جب نہتے کشمیریوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق نہ چھینا جاتا ہوصرف گزشتہ اکتوبر کے مہینے میں بھارتی فوج نے 22کشمیریوں کو شہیدکیا، زیر حراست 12افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،1540بے گناہ کشمیری گرفتار کیے گئے اس کے علاوہ 6عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا۔دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی سفارکی کا یہ سلسلہ کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا کیوں کہ قانون فطرت ہے کہ ہر رات کے بعد صبح کا اجالا بہر صورت نمودار ہوتا ہے۔