جی ہاں!! پیارے پاکستان میں سچ اور ایمانداری کا استعمال غربت، ناکامی اور بربادی کو دعوت دینا ہے لیکن آپ نصابی کتا بوں سے لیکر اسلامی، تا ریخی، ادبی کتابوں میں سب سے زیادہ سچائی اور ایمانداری کے موضوعات پائیں گے۔ ایسے ایسے روح افزاء وا قعات ملیں گے۔ سچائی اور ایمانداری پر بے مثال قصے کہانیاں، حیرت انگیز پند و نصاح اور نادر نسخے پل بھر کیلئے ایمان تازہ کر دیتے ہیں مگر عملی زندگی میں آپکو یہ سب کو سُوں دور بھی نظر نہیں آئیگا۔ سو شل میڈیا قرآنی آیات، احادیث، تفاسیر اور اخلاقیات سے بھرا پڑا ہے لیکن تقریباً ہر شخص بے عملی بلکہ بد عملی کا شکار ہے۔ ہمارے کرداروں سے لنڈے کی بُو نظر آتی ہے۔ پاکستانی قوم اقوالِ زریں کی شیدائی ہے۔ اپنے تو اپنے ، اغیار کے بھی مقولوں پر قومی رنگ و روغن کر کے اپنے آپکو دانشور اور علمی اخلاقی شخصیت پیش کیا جاتا ہے لیکن جب آپ ان سے ملیں تو ما شاء اللہ جہالت کا منبع دکھائی دیں گے۔ پاکستان میں اپنی رائے کا بر ملا اظہار سخت ناپسندیدہ فعل ہے جبکہ اختلافِ رائے کا مطلب دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ بے عزتی، ذلت، گا لم کلوچ، مقدمہ بازی، اغوائ، تیزاب گری اور قتل و غارت کی زیادہ تر جڑیںاختلاف رائے سے جا ملتی ہیں۔ یہ جہالت، ذلالت اور خباثت کا شا خسانہ ہے۔ جہا لت کی سب سے بنیاد ی وجہ علم کی کمی ہے۔ جہالت سے کم ظرفی، کمینگی، خود غرضی، لالچ، کام چوری، نفرت اور انتقام جنم لیتا ہے۔ جو لوگ ہر وقت دوسروں میں عیب کیڑے نکالتے ، لوگو ں کی برا ئیاں کرتے اور دلوں میں نفرتیں ڈالتے ہیں۔ اُنکے اندر جہالت کو ٹ کوٹ کر بھری ہو تی ہے۔ جن کے دل، دماغ اور زبان صاف ہوتی ہے۔ اُنکی فطرت، با طن ، روح میں سچائی اور نیکی ہوتی ہے۔ ہر وقت دوسروں میں خا میاں تلاش کر نا، اپنی غلطیاں، عیب اور نقص دوسروں پر ڈا لنا یا دلوں میں کدورت کے بیچ ڈا لنا جہالت کی سب سے بڑی نشا نی ہے جس شخص کے پاس علم ، سچا ئی، وسیع القلبی، اعلیٰ ظرفی ہو تی ہے۔ وہ دوسروں کی برا ئیوں ، عیبوں، کمزوریوں، خطائوں اور بدخو ئیوں پر پردہ ڈا لتا رہتا ہے بلکہ اپنے علم، نیکی اور وسعت قلبی کی وجہ سے در گزر اور معاف کر نے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتا ہے۔ جہالت کی وجہ سے آج پاکستان کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے۔ جہالت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں ہر آدمی حسبِ تو فیق مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے۔ کو ئی فرد مذہب کے حوالے سے دانش و حکمت کی بات کرے یا بدعت کو روکنے کی کو شش کرے تو مذہبی جنونی اُس کی بات سمجھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اُس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں جبکہ وہ شخص اصل اسلامی روح کی طرف لانا چا ہتا ہے۔ مثلاً اللہ اور رسولؐ کے نام پر لوگ نمودو نمائش کرتے ہیں۔ خودنماز یا قرآن بھولے سے نہیں پڑھتے مگر ان محفلوں میں ایک میلہ سے لگا لیتے ہیں۔ مذہب کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا۔ مرد ریشمی لباس زیبِ تن کرکے آتے ہیں۔ قیمتی اور بیش قیمت گا ڑیوں کی نمائش لگاتے ہیں۔ عورتیں مہنگے، رنگ برنگے، زرق برق ملبوسات اور بھاری بھر کم جیولری، میک اپ کے ساتھ شریک ہو تی ہیںتاکہ دوسری عورتوں پر اپنی دھاک جما سکیں۔ اِن روح پرور مجلسوں میں عورتیں ایک دوسرے کی غیبتیں چغلیاں اور طعنہ زنی کرتی ہیں۔ مر د بزنس، امارت، دکھاوے اور گپ شپ جاری رکھتے ہیں۔ کو ئی بتا ئے کہ اس سے اسلام کی کیا خدمت ہو تی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر نو دولتیوں میں یہ رواج ہے کہ کسی شا دی کی تقریب میں چلے جائیں تو لوگ عا لیشان شادی دیکھ کر حسد و رقابت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دلہن خوبصورت ، تعلیمیافتہ، خاندانی،امیر کبیر ہو تو لوگوں کو جلن ستا تی ہے۔ دُولہا خوبرو، سمارٹ، تعلیمیافتہ، خو شحال ہو تو لوگ انگا روں پر لوٹ جاتے ہیں۔ جلن حسد، رقابت سے آدمی کے اندر کی جہالت باہر نکل آتی ہے۔ شادی کا مطلب خوشی ہے لیکن لوگ خوشی میں بد مزگی پیدا کر کے خوش ہو تے ہیں۔جہا لت کا یہ حال ہے کہ لوگ سڑکوں پر اوورٹیکنگ پر غرانے لگتے ہیں۔ دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ ٹریفک قوا نین کو پامال کرکے حا دثات کو جنم دیتے ہیں۔جا ہلوں کی طرح پریشر ہارن استعال کرتے ہیں۔ ذرا سی بات پر جا ہلوں کی طرح ہارن پر ہارن بجاتے ہیں۔ پا گلوں کی طرح اونچی آواز میں انتہا ئی نا پسندیدہ میوزک لگا تے ہیں۔ بغیر سائلنسر کی مو ٹر سائکلیںچلا کر اپنی اوقات دکھاتے ہیں۔ روڈ پراپنی سواری پر کھڑے ہو کر گپ شپ شروع کر دیتے ہیں۔ ہر نو دولتیا عین سڑک پر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سبزی اور پھل خریدتا ہے۔ جس سے ساری ٹریفک درہم برہم ہو جاتی ہے لیکن اُسکے اند ر کے کمپلیکس کی تسکین ہو جاتی ہے۔ رات کے گیارہ بارہ بجے اپنے گھر یا کسی عزیز کے گیٹ پر زور زور سے ہارن بجا کر اپنے اندر کی حیوانیت دکھاتے ہیں ، چاہے کو ئی سو رہا ہے، عبادت کر رہا ہو، بیمار ہو یا پڑھ رہا ہو مگر ان حیوان نما لوگوں کو اتنا تمیز نہیں ہو تا کہ رات کے وقت تم جا کر ڈور بیل بجا دو۔ گاڑی سے نکلتے اگرانھیں دردِگردہ یا دردِ شقیقہ ہو تا ہے تو موبائل پر گیٹ کھلوا لو۔ گا ڑیوں میں بیٹھ کر کھاتے رہیں گے اور گندگی باہر پھینکتے رہیں گے۔ اس ملک میںجاہل طبقہ سیاستدانوں کا ہے جنھوں نے اپنی جہالت سے خود کو امیر سے امیر اور عوام کو فقیر بنا دیا ہے۔ پڑھے لکھے طبقے کواُنکے حقوق سے محروم رکھ کر اُنھیںدن رات روزی روٹی کے چکر میں لگا کر شعور کو چھینا ہے۔لیکن پاکستان میں جہا لت کی کو ئی آخری حد نہیں کیونکہ بھوکی ننگی بے شعور عوام کی حالت ریوڑ کی سی ہے۔ اُنکے پاس حقیقی علم، شعور، جرأت کی کمی ہے۔ یہی جہالت پاکستان کے زوال کی اصل کہانی ہے۔
جہالت کی آخری حد
Nov 15, 2022