ہمارے ہاں ایک نہیں بہت سی خبریں ٹاک آف دا ٹائون اور ٹاک آف داڈے ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک آرمی چیف کی تقرری ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے متعدد بار مزید توسیع نہ لینے کی بات کی مگر کئی لوگ تواتر کے ساتھ توسیع کی بات کرتے رہے۔ اب ان کی طرف سے الوداعی ملاقاتیں اور فارمیشنز کے دورے شروع ہوئے ہیں تو افواہوں میں کمی آئی ہے مگر کچھ لوگ اب بھی پرانی ڈفلی پر پرانا ناچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نئے آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت کیلئے لندن گئے۔ طویل ملاقاتیں اور مشاورت ہوئی۔ میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ تقرری میرٹ اور سنیارٹی کی بنیاد پر ہو گی۔ نومبر کے آخر میں دو تقرریاں ہونی ہیں ایک آرمی چیف کی اور دوسری جوائنٹ سروسز چیف کی۔ جوائنٹ سروسز چیف جنرل ندیم رضا 27نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اگر سنیارٹی کی بات کی جائے تو ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر سب سے سینئر ہیں۔ ادھر عمران خان کا لانگ مارچ پھر سے پہلے کی طرح ہائوس فل رش لے رہا ہے۔ قافلے کئی جگہ سے چل رہے ہیں۔ بڑا قافلہ جی ٹی روڈ پر جہلم کے قریب ہے۔ اسلام آباد تحریک انصاف کو بند کرنے کی ضرورت نہیں وہ حکومت نے کنٹینر لگا کر ابھی سے بند کر دیا ہے۔ رانا ثناء اللہ دل کی تکلیف کے باعث ہسپتال داخل رہے۔ لانگ مارچ کے مقابلے کیلئے حکومت انکو استعمال کر رہی ہے۔ لانگ مارچ کا مقابلہ کوئی دست بدست نہیں کرتا بس ہوش میں ہونا ضروری ہے۔ ویسے جس طرح لانگ مارچ ہے۔ اس نے بڑے بڑوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کہیں دل پر تو نہیں لے گئے۔ عمران خان کی حکمت عملی اب تک تو کامیاب اور لاجواب رہی ہے۔ وہ اس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں کہ مارتے کم ہیں گھسیٹتے زیادہ ہیں۔ بڑھک بازی دونوں طرف سے ہو رہی ہے۔ اڑا دیں گے، الٹا دیں گے،طوفان مچا دینگے۔ ایسے رویوں کا اظہار دونوں طرف سے ہو رہا ہے۔لانگ مارچ، احتجاج اور مظاہرے ہر کسی کا قانونی حق ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ پُرامن ہونگے۔ رانا ثناء اللہ نے گو کہ احکامات لکھ کر دیئے ہیں ،کچھ زبانی بھی کہیں گے مگر وہ اب جوش خطابت کا مظاہرہ کرنے سے چند روز قاصر رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر بڑھکیں جاری رکھیں گے۔ جواب میں مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی کئی جماعتوں کے لیڈر بھی جواب آں غزل دینے سے غفلت نہیں کرینگے۔ بڑھکوں کی بات کریں تو مرحوم سلطان راہی کی یاد آ جاتی ہے ساتھ ہی ان کی شہرۂ آفاق فلم’’مولا جٹ‘‘بھی اور اسکے کردار بھی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ آج ’’مولاجٹ‘‘ کی ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی ہے۔ جس نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں۔ فلم پنجابی ہے جبکہ سارے اداکار ایسے ہیں جو پنجابی سے نابلد ہیں۔ انکا لب و لہجہ اردو کا ہے نہ ڈیل ڈول روایتی پنجابیوں جیسا ہے۔ پنجاب کا کلچر بھی نہیں دکھایا گیا۔ فلم پنجابی ہے کلچر کسی اور علاقے کا۔ ڈاکو سندھ میں کچے کے دکھائے گئے ہیں جبکہ پنجابی سورمائوں سے انکی مشابہت بھی نہیں بنتی ۔فلم ہٹ اس لیے ہو گئی کہ آج کی نوجوان نسل دیکھ رہی جس نے ’’مولاجٹ‘‘ نہیں دیکھی جس نے ’’مولاجٹ‘‘ دیکھی ہے اسے دونوں فلموں میں فرق نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔اس میں جس طرح پنجابی بولی گئی ہے اس فلم کا نام ’’مولاجٹ اِن لکھنؤ ‘‘ ہوتا تو زیادہ مناسب رہتا۔ اس فلم کا ایک کردار ماکھا ہے۔ وہ کہیں سے بھی ماکھا نظر نہیں آتا، کہاں ماکھا اور کہاں مکھی۔ اس ماکھے کی وہی حیثیت ہے جو وزیرآباد سے پکڑے جانے والے حملہ آور کی ہے۔عمران خان پر جس نے حملہ کیا اسے مذہبی جنونی کہا جا رہاتھا۔ وہ کہیں سے بھی مذہبی جنونی نہیں لگتا۔ حلیے اور چہرے مہرے سے وہ چرسی اور نشئی نظر آتا ہے۔قارئین! پنجاب اورپنجابی ثقافت پر پہلے بھی غیرملکی طالع آزمائوں نے حملے کیے اورکئی صدیوں تک اسی طرح پنجاب کا استحصال ہوتا رہا۔پھر 1947 ء میں تقسیم ہندوستان کے دوران سب سے زیادہ جانی،مالی اور جغرافیائی نقصان پنجاب ہی کا ہوا اور اس زمانے میں تقریباً پچاس لاکھ پنجابیوں کو آپس میں لڑا کر موت کی نیند سُلا دیا گیا۔قارئین! میں نے یہ فلم ’’مولاجٹ‘‘ دورانِ تعلیم 1981 ء میں دیکھی تھی بیشک یہ فلم بھی پنجاب کی ثقافت کی ترجمانی نہیں کرتی مگر اس میں کام کرنیوالے فنکاروں نے اپنے مخصوص پنجابی لہجے سے اور مضبوط ڈائیلاگ کی وجہ سے عوام کے ذہنوں پر نقوش چھوڑے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ’’مولاجٹ‘‘ کا ایک چربہ ریلیز کیا گیا جس میں کہیں بھی پنجابی لباس ،پنجابی چہرے ،پنجابی تلفظ اور حتیٰ کہ اس پرانے دور میں بھی پنجابی ڈھابہ ریسٹورنٹس دکھائے گئے اور ان پر شراب ایسے فروخت اور پیش کی جا رہی تھی جیسے ہم پنجاب کے کسی گائوں میں نہیں بلکہ ٹیکساس کے کسی گائوں میں ’’کائوبوائے‘‘ فلم کی شوٹنگ دیکھ رہے ہوں؟جب کہ دراصل یہ دھرتی میاں محمد بخش، بابا فرید،بلھے شاہ جیسے صوفیا کی دھرتی ہے۔
مولاجٹ اِن لکھنؤ اور لانگ مارچ
Nov 15, 2022