مسئلہ کشمیر: حوصلہ افزاء امریکی رد ِعمل

Nov 15, 2022

  مسئلہ کشمیر پر امریکہ کا موقف ایکبار پھر سامنے آیا ہے جسے نظر میں رکھتے ہوئے اسے مسئلہ کشمیر کے حل میں حوصلہ افزاء پیش رفت سے کسی حد تک تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔امریکی اسسٹنٹ سیکریڑی خارجہ ڈونلڈ لو نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور مسئلے کا حل اس صورت میں ممکن ہے کہ بیرونی مداخلت کے بغیر انڈیا اور پاکستان براہِ راست مذاکرات کریں۔ امریکی محکمہ خارجہ میں جنوب اور وسط ایشیائی امور کے ذمہ دار ڈونلڈ لو کا مزید کہنا تھا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی رد و بدل نہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ڈونلڈ بلوم پاکستان کے کشمیر کے علاقے میں گئے مگر یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ اسی طرح ہمارے سفیر انڈیا کے کشمیر کے علاقوں کا بھی دورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ کشمیر کے خطے میں پرتشدد کارروائیاں کم ہو رہی ہیں اور ہنگامی صورتحال یا کشیدگی میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اسے ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ کیا کہ کشمیر میں مقامی الیکشن اور سیاسی حقوق بحال کیے جانے چاہییں۔ یہ یقینی بنایا جانا  چاہیے کہ میڈیا کشمیر میں اپنا کام جاری رکھ سکے۔ کشمیر میں امن کے لیے یہ سب ضروری ہے۔ مجھے امید ہے آئندہ برسوں میں یہ امن یقینی بنایا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انڈیا کو لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے کسی فوجی امداد کا مقصد اسے انڈیا کے خلاف استعمال کرنا ہوتا ہے جو یقینا درست نہیں ہے ۔ ڈونلڈ لو نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایف 16 طیاروں کا یہ منصوبہ فوجی امداد نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے فوجی ساز و سامان کی فروخت ہے۔ پاکستان کے لیے امریکی معاونت ایف16 فائٹر جیٹس کے حوالے سے ہے اور نہ کہ کسی نئی طیارے، ہتھیار اور عسکری تجویز کے حوالے سے۔ جب بھی امریکہ کسی ملک کو فوجی سامان فروخت کرتا ہے تو وہ اس کی تکنیکی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح انڈیا اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے ڈونلڈ لو نے کہا کہ دفاعی معاہدوں پر عمل سے امریکہ اپنی حساس ٹیکنالوجی انڈیا کو منتقل کر رہا ہے اور دونوں ملک اس کی بہتری کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔ ہماری انڈیا سے بات چیت چل رہی ہے۔ جدید ہتھیار جیسے پریڈیٹر ڈرون اور ایف 18 جنگی طیارے بھی ممکنہ طور پر انڈیا کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے انڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اعلی سطح پر بات چیت کی ہے۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ دونوں یوکرائن جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر روس سے متعلق بعض اوقات دونوں ملکوں کی سوچ مختلف رہی ہے۔
    مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ کے اس تازہ ترین موقف کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ درست ہے کہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں امن و سلامتی سے جڑے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر دُنیا کے دیگر عالمی اداروں کی طرح امریکہ میں بھی خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور امریکہ سمیت سب ہی ممالک اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں بشمول اقوام متحدہ کے مگر جہاں تک ان تمام اداروں کی مسئلہ کشمیر کے حل میں کوشیشوں کا عمل دخل ہے تو گو کہ یہ کوشیشیں کی تو گئیں ہیں اور کی جارہی بھی ہیں مگر چونکہ اِن کوشیشوں میں جہاں تک خلوص نیت کا تعلق ہے تو اس کی کمی ہی دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سات دھائیوں کی کوشیشوں کے باوجود ہنوز حل طلب ہے ۔مگر ہمارے ا س کہے کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ کوشیشوں کا یہ سلسلہ روک دیا جانا چاہیے یا پھر سے یعنی دوبارہ سے از سر نو کوشیشوں کا آغاز کر نا چاہیے بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اب  اس مسئلہ کو زبانی جمع خرچ یعنی بیان بازی سے نکال کراسکے حقیقی حل کی طرف لانا ہے جس کے لئے عالمی قراردادیں پہلے سے موجود ہیںاور جوستر پچہتر برس پہلے سے ہی عالمی سطح کا انتہائی طاقتور ترین ادارہ اقوام متحدہ پیش کر چکا ہے،ان پر اب صرف عملدرآمد کی ضرورت ہے اور اس عملدرآمد کے لئے ضرورت اصل میں خلوص نیت کی ہے جو بدقسمتی سے بھارت سمیت کسی بھی عالمی ادارے میں ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی ۔کہنے کو تو سب کا یہی کہنا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جسے یو این او کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا چاہیے مگر اب تک کی کوشیشوں کے تناظر میں دیکھا جائے توبات وہی ہے جو ہم اوپر کی لائینوں میں بتا چکے ہیں ۔اپنے اس تجزئیے کی دلیل میںڈونلڈ لو کی طرف سے دیئے گئے اس انٹرویو کے اس پیرے کا زکر کرنا چاہیں گے جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کو اب بھی آئندہ آنے والے برسوں سے لنک کیا ہے ،’’ ان کا کہنا تھا کہ’’ مجھے امید ہے آئندہ برسوں میں یہ امن یقینی بنایا جاسکے گا‘‘۔وہ کشمیر میں امن کو یقینی بنانے کے لئے مزید برسوں کی بات کررہے ہیں نا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ بہت جلد مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے والا ہے ۔حالانکہ ضرورت اس مسئلہ کو ’’اب‘‘ حل کرنے کی ہے جو اگر امریکہ چاہے تو اگلے ایک برس میں بھی حل ہو سکتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی ادارے ہی حل کر سکتے ہیں ،تاہم اِنہوں نے کشمیر میں کشیدگی اور پر ُ تشدد کاروائیوں میں کمی آنے کی جو بات کی ہے وہ امن کے قیام میں حوصلہ افزاء ضرور ہے مگرجہاں تک انہوں نے بیرونی مداخلت کے بغیرپاکستان بھارت کے آپس کے مذاکرات کی بات کی ہے تو یہ بے معنی تصور ہوتی ہے کیونکہ دونوں کے مابین اب تک جتنے بھی مذاکرات ہوئے وہ بھارت ہی کی ہٹ دھرمی کے باعث پہلے کبھی نتیجہ خیز ثابت ہو سکے نہ آئندہ نتیجہ خیز ثابت ہونے کی کوئی امید ہے ۔ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مذاکرات امریکی نگرانی میں ہوں تو شائد کوئی راہ نکلنے کی امید پید ا ہو جائے،کہ امید پر ہی دُنیا قائم ہے ۔

مزیدخبریں