ہزارہا برس سے نافذ ملوکیت بالآخر آمریت اور پھر جمہوریت پر منتج ہوئی جیسے جیسے تعلیم کے سورج کی روشنی چارسُو پھیلی اور انسانی شعور بیدار ہوتا گیا تو لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ حاکم اور محکوم کی زندگی میں اس قدر تفاوت کیوں ہے؟ ایک طویل جدوجہد کے بعد دنیا نے بالعموم اور اہل مغرب نے بالخصوص غلامی کا طوق اُتار دیا۔ ملوکیت کے محل زمین بوس ہو گئے مصر کے معزول بادشاہ فاروق نے درست ہی کہا تھا۔ دنیا میں پانچ بادشاہ ہی رہ جائیں گے۔ چار تاش کے اور پانچواں برطانیہ کا! برطانیہ میں بھی بادشاہت برائے نام ہے۔
ہندوستان ایک بڑا ملک ہونے کے باوصف چھوٹا دماغ رکھتا تھا جبھی تو ہزاروں میل سے آئی ہوئی مچھیروں کی ایک قوم نے اس پر قبضہ کر لیا۔ سب ہندوستانی مل کر ایک پھونک ہی مار دیتے تو انگریز سمندر میں جا گرتے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ جب حاکم طائوس ورباب کے رسیا ہو جائیں اور سلاطین ایں دفترِ بے معنی غرق مہِ تاب اولیٰ کا ورد کرنے لگیں تو پھر ذلت اور رسوائی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہندوستان آزاد تو ہو گیا لیکن دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ ہندو پاکستان ، مسلمانانِ ہند پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ ہزار برس کی غلامی کے بعد ہندو انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لینے کے بعد اس کا اصل ایجنڈا شروع ہو گا۔ He will subject them to the tyranny of the majority یہی سوچ پاکستان کے قیام کا محرک بنی!
دونوں ملک 1947ء میں بیک وقت آزاد ہوئے۔ دونوں نے برطانوی پارلیمانی طرز حکومت اپنانے کا اعلان کیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ہندوستان کا وزیر اعظم بنا، قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔ بدقسمتی سے زندگی نے قائد سے وفا نہ کی اور وہ جلد رحلت فرما گئے۔ نہرو کی قیادت میں وہاں جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ گیا۔ ادھر’’ میوزیکل چیئرز‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا۔ رہی سہی کسر آمریت نے نکال دی۔ آمریت کے محرک بھی سیاست دان بنے۔ سکندر مرزا نے اقتدار ہاتھ سے جاتا دیکھا تو مارشل لاء نافذ کر دیا۔ وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا اور جلد ہی جنرل ایوب خان کے ہاتھوں معزول ہو کر جلاوطن ہو گیا۔ ایوب خان نے جب وردی اُتار ی تو اس کے لیے اقتدار میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو توڑ کر اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ جنرل یحییٰ نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی۔ ملک دولخت ہو گیا۔
کہنے کو تو ذوالفقار علی بھٹو جمہوری وزیر اعظم تھا۔ بیدار مغز زیرک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ! مگر سندھی وڈیرا کبھی بھی اس کے اندر سے باہر نہ نکل سکا۔ وہ آمروں کا بھی آمر نکلا۔ زندانِ نازیاں کی طرز پر دُلائی کیمپ اس کے دور میں بنا۔ طاقت کے زعم میں قبل از وقت انتخاب کرا بیٹھا۔ الیکشن میں ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ نتیجتاً احتجاجی تحریکِ نظام مصطفی چلی ، اقتدار تو جانا ہی تھا بدقسمتی سے زندگی کی قید سے بھی آزاد کر دیا گیا۔
ضیاء الحق کا دس سالہ دور حکومت ایک جبر مسلسل تھا۔ عوام کے ساتھ جمہوریت کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ اگر ہوائی حادثہ نہ ہوتا تو شاید دس برس اور حکومت کرتا۔ ضیاء الحق کی ناگہانی موت سے ’’میوزیکل چیئرز‘‘ کا کھیل ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف باری باری وزیر اعظم بنتے اور قبل از وقت فارغ ہوتے رہے۔ جمہوریت کے ساتھ اتنا سنگین مذاق شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ اپنے اپنے دور میں دونوں نے ایک دوسرے کو رگیدنے اور لتاڑنے کی مقدور بھر کوشش کی۔
محترمہ ایک المناک حادثے میں جاں بحق نہ ہوتیں تو شاید یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا۔ ان کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کو ’’ہمدردی‘‘ کا ووٹ ملا اور اس کے ساتھ ہی اتہام و دشنام کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ پیپلز پارٹی نے کسی طور پانچ سال پورے کئے۔ گیلانی کو جب عدالتی حکم کے ذریعے فارغ کیا گیا تو زرداری نے وزارت عظمیٰ کا ہار راجہ پرویز اشرف کے گلے میں ڈال دیا۔ مورخین جب تحقیق کریں گے تو اُنہیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بظاہر عدالتی حکم کے پسِ پردہ زرداری کی شاہ صاحب سے ناراضی تھی وہ کچھ زیادہ ہی ’’آزاد‘‘ ہو گئے تھے۔ ’’چُپکے چُپکے۔ چوری ۔ چوری‘‘ کا عمل زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔ وہ خط جو شاہ صاحب نے زرداری کے حکم پر سوئس حکام کونہ لکھا وہی راجہ نے زرداری کے ایما پر لکھ دیا ’’’’رموزِ مملکت خویش خِسرواں دانند ‘‘
میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے اور تینوں دفعہ اپنی لاابالی طبیعت اور افتاد طبع کے ہاتھوں قبل از وقت رخصت ہوئے۔ تاریخ سے سبق تو کیا سیکھنا تھا، انہوں نے اسے طاقِ نسیاں میں ڈال دیا۔ کئی اعتبار سے یہ مطلق العنان حکمران تھے۔ امیر المومنین تو بوجوہ نہ بن سکے لیکن اس قسم کے اختیارات استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک ہی خاندان کے پانچ ممبروں کو اسمبلی اور سینٹ کا ممبر بنا دیا۔ حضرت عمرؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ’’خالد بن ولید‘‘ کو کمان سے ہٹانے کی کوشش۔ (جاری)