فیض حمید کیخلاف الزامات سنجیدہ، درخواست گزار کے پاس دیگر فورم موجود: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ر فیض حمید کیخلاف کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے۔ درخواست گزار کے الزامات اگر ثابت ہوئے تو مسلح افواج، آئی ایس آئی آئی، رینجرز اور وفاقی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ سنجیدہ الزامات ہونے کے باعث انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست گذار کے پاس وزارت دفاع سمیت دیگر عدالتی فورمز موجود ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا سابق چیف جسٹس،ڈی جی ایچ آر سیل کی جانب سے جاری کردہ احکامات، سمن اور ہدایات غیر قانونی اور خلاف آئین ہیں۔ رجسٹرار سپریم کورٹ انسانی حقوق سیل کو سمن، ہدایات جاری کرنے سے روکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو جوڈیشل امور کی انجام دہی سے روک دیا۔ سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق ٹاپ سٹی پر قبضہ کیلئے انکو اور اہلخانہ کو اغوا کیا گیا، جنرل ر فیض حمید پر درخواست گزار کے آفس اور گھر پر چھاپے کا الزام ہے،جنرل ر فیض حمید پر درخواست گزار کے گھر کا سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرنے کا بھی الزام ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا سپریم کورٹ کے علاوہ کارروائی کیلئے کوئی متعلقہ فورم نہیں بنتا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184کی شق3 کے معیار پر پورا نہ اترنے پر فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹا دی۔ سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے، درخواست آرٹیکل 184 کی شق تین کے مقابلے میں مختلف نوعیت کی ہے، سپریم کورٹ نے براہ راست آرٹیکل 184 کی شق تین کا استعمال کیا تو دوسرے فریقین کا حقوق متاثر ہونگے۔ درخواست گزار کے خدشات ہیں کہ اس کی درخواست پر وزارت دفاع کارروائی نہیں کرے گی۔ درخواست گزار نے کہا جن پر الزامات ہیں وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ شکایت کنندہ کی درخواست پر کارروائی کی جائے گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی وفاقی حکومت کی جانب سے سے دئیے گئے مؤقف پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اگر درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کرے تو قانون کے مطابق شکایت کا جائزہ لیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے دو صفحات پر مشتمل ایڈیشنل نوٹ میں کہا ہے سپریم کورٹ میں ایچ آر سیل 2005ءسے کام کر رہا ہے، دوران سماعت بتایا گیا سپریم کورٹ میں قائم کردہ انسانی حقوق سیل قانون کے مطابق نہیں، عدالت کو بتایا گیا چیف جسٹس کی جانب سے چیمبر میں دیے گئے احکامات، اقدامات بھی کسی قانون کے مطابق نہیں، سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے جاری کردہ خطوط سے عدالتی احکامات ہونے کا غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔ بتایا گیا چیف جسٹس کی جانب سے فریقین کو چیمبر یا میٹنگ روم میں بلانا شفاف ٹرائل کے منافی ہے۔ انسانی حقوق کا سیل براہ راست یا بلواسطہ عدالتی امور کی انجام دہی نہیں کر سکتا، انسانی حقوق سیل صرف وصول شدہ خطوط چیف جسٹس کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ چیف جسٹس، ڈی جی ایچ آر سیل کی جانب سے جاری کردہ احکامات، سمن اور ہدایات غیر قانونی اور خلاف آئین ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...