ملک میں گیس کی ناصرف قلت ہو رہی ہے بلکہ گیس کی قیمتوں میںمسلسل اضافے سے عام آدمی پر بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں باہر سے گیس منگوانا پڑتی ہے، صبح اور دوپہر کھانے کے اوقات میں گیس کی عدم دستیابی سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ رات کے وقت گیس کی بندش سے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں اگر کوئی گیارہ بارہ بجے یا اس کے بعد پہنچا ہے تو اس کے پاس کھانا گرم کرنے یا چائے پکانے کے لیے کوئی سہولت نہیں ہو گی اور یہ کوئی نئی بات نہیں ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بہت وقت گذر چکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سردیوں میں رات تین یا چار بجے عبادت کے لیے جاگتے ہیں اور سردیوں میں انہیں گیس کی بندش سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے اس انداز سے بھی سوچا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی تو ہیں جو رات کے وقت عبادت کے لیے جاگتے ہوں گے انہیں ہر موسم میں کچھ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے گیس نہیں ہو گی تو وہ کیا کریں گے۔ میں یہ بات لکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگوں کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے لیکن بدقسمتی ہے کہ یہاں حکمرانوں کو ایسی کوئی سوچ ہی نہیں ہے۔ یہاں تو عام شہریوں کا کوئی نہیں سوچتا رات کو جاگ کر اللہ کو یاد کرنے والوں اور اس ملک کے لیے دعائیں کرنے والے خاموش افراد بارے کون سوچے گا۔ گیس کی قلت اپنی جگہ اور اس حوالے سے مختلف مسائل اپنی جگہ ہیں اور ہمارے حکمران طبقے کی بے حسی اپنی جگہ ہے کیونکہ ملک میں کوئی بھی مسئلہ ہو اس کے دیرپا حل کے لیے کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت دلجمعی اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام نہیں کرتی ۔ اگر اس پس منظر کو دیکھیں اور حکمرانوں کے فیصلوں کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی یے کہ ہمارے مسائل کی بڑی وجہ حکمرانوں کی عدم توجہ ہی بے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن معاہدہ ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جس کی تکمیل پاکستان میں توانائی بحران حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے آج تک ہم اپنے حصے کا کام بھی نہیں کر سکے ہیں۔ اگر پاکستان مقررہ وقت میں منصوبہ مکمل نہیں کرتا تو اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اس جرمانے سے بچنے کیلئے پاکستان کو مارچ دو ہزار چوبیس تک ایرانی سرحد تک اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کرنی ہے۔ اب اندازہ کریں کہ مارچ دو ہزار چوبیس کون سا دور ہے۔ ہم نے الیکشن سے فارغ ہونا ہے اور مارچ ہمارے سامنے ہو گا ۔ درحقیقت ہم بہانے تلاش کرنے میں کسی سے کم نہیں ہیں اگر ملک میں توانائی کا بحران ہے تو پھر یہ کام تو بروقت مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ بہرحال اب اس سلسلہ میں نگران وزیر توانائی محمد علی کی سربراہی میں ایک وفد پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کے لیے تہران پہنچا ہے۔ نگران وزیر توانائی محمد علی ایرانی ہم منصب سے مذاکرات کریں گے جس میں انٹر سٹیٹ گیس سسٹمز کے حکام بھی شریک ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے میں پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کی ڈیڈلائن میں توسیع کے حوالے سے بات کرے گا۔ معاہدے کے تحت ڈیڈ لائن تک تعمیر نہ ہونے کی صورت میں ایران عالمی ثالثی عدالت میں جاسکتاہے اور پاکستان پر اٹھارہ ارب ڈالر تک جرمانے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ منصوبہ شروع ہونے پر پاکستان کو ایران سے یومیہ پچھتر کروڑ مکعب فٹ گیس درآمد ہونی ہے۔ کیا ہمیں اس منصوبے کو ہر حال مکمل نہیں کرنا چاہیے تھا دیکھیں ایران پر پابندیاں اپنی جگہ ہیں لیکن پاکستان کی قیادت کے پاس توانائی کے شدید بحران کے پیش نظر دنیا کو قائل کرنے کے لیے مناسب انداز میں کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب بھی کچھ بگڑا نہیں ہے ہم مارے مارے پھرتے ہیں لیکن جہاں سے ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وہاں کچھ بہتر کرنے اور دنیا کو قائل کرنے کے بجائے ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی ایسے معاملات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ناصرف سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ بھاری جرمانے بھی برداشت کرنا پڑے ہیں۔
اب سموگ کی بات کر لیں یہ مسئلہ بھی کہیں نہ کہیں ہماری بدانتظامی اور بروقت بہتر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کے لیے سب سے آسان تعلیمی اداروں کو بند کرنا ہے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ چھٹیوں میں اضافے سے تعلیم کا کتنا حرج ہوتا ہے ۔ ہم ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اگر کچھ کر سکتے ہیں تو وہ نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر موٹر وے پر لاہور میں داخل ہوتے وقت اکثر اوقات گاڑیوں کی بڑی بڑی تعداد گھنٹہ گھنٹہ لائنوں میں لگی رہتی ہیں کیا یہ ماحول کو تباہ کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ ان حالات میں ایک تو لوگوں کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے دوسرا ماحول آلودہ ہوتا ہے تیسرا پیٹرول ضائع ہوتا ہے یعنی ہر طرف گھاٹے کا سودا ہے لیکن شاید ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی اس طرف سوچا ہی نہیں ہے ۔ کسی کو پروا نہیں کہ ہم اپنا وقت اور سرمایہ خرچ کر کے ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں دنیا ماحول کو صاف کرنے کے لیے وقت اور سرمایہ خرچ کرتی ہے ہم وقت اور سرمایہ خرچ کر کے بیماریاں خرید رہے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے جس سے ہماری ماحول دوستی کے نعرے اور اقدامات بے نقاب ہوتے ہیں ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں سے یہ ثابت ہو کہ ہم ماحول کو صاف رکھنے کے لیے نعرے لگاتے اور بیانات تو دیتے ہیں لیکن کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتے۔نہ ہم سارا سال اس حوالے سے کچھ کرتے ہیں نہ سموگ کے دنوں میں عقل استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم چاہتے ہی نہیں کہ ملک کے مسائل حل ہوں۔ ہمیں تو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ جب دنیا کے آلودہ شہروں میں لاہور اور کراچی کا نام آتا ہے تو یہ کس حد تک باعث شرم ہے۔ آپ لاک ڈاو¿ن کر دیں، سکول آن لائن کر دیں، ورک فرام ہوم کر دیں لیکن کیا زندگی معمول پر رکھے بغیر ماحول دوست اقدامات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ کیا کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟؟
آخر میں احمد فراز کا کلام
سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
ہم غزل میں بھی ہنر یار کے رکھ دیتے ہیں
شاید آ جائیں کبھی چشم خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں
تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں
اب کسے رنج اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گل و گلزار کے رکھ دیتے ہیں
ذکر جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسئلے بے کار کے رکھ دیتے ہیں
وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہل دل بھی
طاق نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں
زندگی تیری امانتں ہے مگر کیا کیجے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں
ہم تو چاہت میں بھی غالب کے مقلد ہیں فراز
جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں