آپ کے اندر کا ’تجزیہ نگار‘ کیا کہتا ہے؟ ہزاروں میزائل، دسیوں ہزار بم، سینکڑوں بمبار اور فائٹر جیت جو گولیوں کے برسٹ مارنے ہیں، لاکھ سے اوپر کی آرمی کا محاصرہ ، پانی بند، بجلی بند، خوراک بند اور مقابلے میں غزہ کی ایک تنگ سی پٹی، کل لمبائی 20 میل جسے لاہور میں چوہنگ سے شاہدرہ تک کی سڑک، ایسے میں اسرائیل کو دوسرے تیسرے دن ہی وکٹری کا نشان بلند نہیں کر دینا چاہیے تھا لیکن 36 روز ہو گئے، وکٹری کا نشان 2014ءکے عمران خان کے دھرنے میں ایمپائر کی انگلی بن کر رہ گیا ہے۔
اور ایمپائر امریکا ہے جو اب دبے دبے ڈرے ڈرے لہجے میں اسرائیل کو جنگ بندی کا مشورہ دے رہا ہے۔ اسرائیل نے بارہ ہزار لاشیں گرا دیں جن میں ساڑھے تین ہزار سکول کے بچے تھے اور دو ہزار ایسے بچے جو ابھی سکول کی عمر کو پہنچے ہی نہیں تھے، شیرخوار سے لے کر تین چار سال کی عمر کے بچے۔ بے مبالغہ اتنی بڑی قوت قاہرہ کا مقابلہ جو لوگ کر رہے تھے، وہاں نہتا ہی کیسا چاہیے۔ ان نہتے لوگوں نے ایک سو سے زیادہ مرکاوا ٹینک تباہ کر ڈالے۔ وہی مرکاوا جو دنیا کا سب سے مہنگا ٹینک ہے، ٹینک کیا ہے، چلتی پھرتی چھاؤنی ہے اور ایک ٹینک کی قیمت ایک ارب روپے ہے اور جس کا انجام ٹائی ٹینک کی طرح ہوا۔ اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ کبھی ڈوب نہیں سکتا، وہ پہلی ہی تیراکی میں ڈوب گیا ۔ مرکاوا پر بھی ایسے ہی دعوے تھے، چین روس کیا، خود امریکا کے ٹینک شکن میزائل اور گولے بھی مرکاوا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن روایتی بارود سے بنے ’دیسی‘ ساخت کے حماس کے راکٹوں نے سو سے زیادہ تباہ کر ڈالے جن کا ملبہ غزہ کے کھنڈروں میں اور آس پاس پڑا ہوا ہے۔
حماس کے رہنما کا بیان آیا ہے کہ ہمارا قتل عام ہوا اور دنیا تماشا دیکھتی رہی، خدا ان سے حساب لے گا۔ دنیا سے مراد اسلامی کانفرنس کے ممالک نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ انھوں نے تماشا دیکھا ہی کب، اس نے منہ اور آنکھیں دونوں ہی بند کر رکھی تھیں کہ ایسے سفاک مظاہرے نہیں دیکھے جاتے۔
________________
لیول پلیئنگ فیلڈ __ یہ دیا جائے، کم از کم دو جماعتوں کا مطالبہ ہے۔
پی ٹی آئی کی اپنی آواز تو گم ہے یا حد سے زیادہ نحیف لیکن میڈیا میں حشرات الارض کی طرح کلبلاتے اس کے نمائندوں نے اس بارے میں وہ غل مچا رکھا ہے کہ الامان الحفیظ۔ پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ دو ۔ دو ۔ دو۔ کیوں نہیں دیتے، دیتے، دیتے۔ ایسے الیکشن کے نتائج کوئی نہیں مانے گا۔ مانے گا۔ گا۔ گا!!!
لیول پلیئنگ فیلڈ سے کیا مراد ہے؟ بات ذرا سے غور پر واضح ہو جائے گی۔ میڈیا پر موجود پی ٹی آئی کے نمائندوں کا اشارہ ان خبروں کی طرف ہے کہ خان صاحب کو 14 سال قید کی سزا ہو جائے گی۔ ان حضرات کا مافی الضمیر یہ ہے کہ نواز شریف کو تو دس سال قید ہوئی تھی، خان صاحب کے لیے چار سال زیادہ کیوں؟ مطلب خان صاحب کو دس سال کی سزا ہو جائے تو چلے گی، زیادہ ہو گی تو پھر ایسے الیکشن کے نتائج کوئی نہیں مانے گا۔ لیول پلیئنگ فیلڈ میں پھر دو چار نکتے اور بھی آ جائیں گے۔ نواز شریف کو جیل میں ایک کمرہ ملا تھا، خان صاحب کو آٹھ آٹھ سیل دیے گئے ہیں۔ سو فیصد یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، خان صاحب کو بھی ایک ہی کمرہ ملنا چاہیے ورنہ پھر ایسے الیکشن کے نتائج کون مانے گا۔
نواز شریف کو جیل میں دیسی ککڑ ، دیسی بھیڈو کا گوشت نہیں ملتا تھا، دیسی گھی بھی نہیں، انھیں کوئی مالشیا ملا تھا نہ دس ڈاکٹروں کی فوج ۔ ہرگز ہرگز یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔ ایسا ہی رہا تو بلاشبہ الیکشن نتائج متنازعہ ہو جائیں گے۔ مریم نواز کے باتھ روم کے اندر کیمرے لگے تھے، خان صاحب کا باتھ روم ’کیمرہ فری‘ ہے۔ یہ امتیازی سلوک بھی لیول پلیئنگ کے خلاف ہے۔ نواز شریف کو بیمار بیوی سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، خان صاحب کو اپنے تندرست ہٹے اور کٹے بیٹوں سے فون پر بات کرنے کا عدالتی حکم بھی موجود ہے، نہ کرانے پر توہین عدالت کا نوٹس بھی۔ چنانچہ وہ ہٹے اور کٹے دونوں بیٹوں سے بار بار بات کر چکے ہیں اور آنے والے برسوں میں، بھی یہ سہولت انھیں دستیاب رہے گی۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی یہ بھی سخت خلاف ورزی ہے۔ ایسے ہی چلتا رہا تو الیکشن کے نتائج کو کون مانے گا۔
نواز شریف جب جیل میں تھے تو سو میں سے ساڑھے ننانوے پروگرام ان کے خلا ف ہوتے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کو ایک ٹی وی اینکر نے بتایا کہ ہمیں پتا تھا کہ ایک گھنٹے کے پروگرام میں نواز شریف کے لیے چالیس مرتبہ چور کا استعمال لازمی ہے (چنانچہ اینکر پرسن بے چارہ کیلکولیٹر سامنے رکھتا تھا، اسے پروگرام ختم ہونے سے پہلے پہلے یہ گنتی پورا کرنا ہوتی تھی۔ عمران خان کے باب میں یہ دونوں ماجرے نہیں ہیں۔ کئی چینلز پر کئی پروگرام اینکر اور میزبان خان صاحب کی تعریفیں بھی کرتے ہیں، ان پر ہونے والے ’مظالم‘ پر سینہ کوبی بھی کرتے ہیں نیز کسی پروگرام میں خان صاحب کے لیے چور کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا، لہٰذا گنتی پوری کرنے کی بھی کوئی پابندی نہیں ، ظاہر ہے، ایسی صورتحال میں انتخابی نتائج کون مانے گا۔
________________
لیول پلیئنگ فیلڈ کا شکوہ پیپلز پارٹی کو بھی ہے۔ تحریک عدم اعتماد اور پھر بعدازاں مخلوط اتحادی حکومت کے زمانے میں یہ رپورٹیں عام تھیں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ سے پنجاب میں 34 سیٹیں مانگی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق مسلم لیگ نے ہاں تو نہیں کی البتہ دیکھتے ہیں والی تسلی ضرور دی۔ اب اس ’دیکھتے ہیں‘ والے وعدے پر مسلم لیگ پکڑائی نہیں دے رہی ۔ چنانچہ لیول پلیئنگ فیلڈ تو ’پھیتی پھیتی‘ ہو گیا، یہاں پنجاب میں اور پھر بلوچستان میں بھی کہ وعدہ تھا یا یقین دہانی پتا نہیں لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو یقین تھا کہ باپ پارٹی اس کی آغوش میں آ گرے گی۔ لیکن ’باپ‘ پارٹی کا رخ اب مسلم لیگ کی طرف ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی ایسی ’ملیامیٹی‘ کی توقع پیپلز پارٹی کو بالکل نہیں تھی، چنانچہ اس کی دہائی بھی برحق ہے اور بلاول بھٹو کا یہ نعرہ مستانہ بھی کہ ’سلیکٹڈ نواز شریف‘ کی حکومت قبول نہیں کریں گے۔
________________
ہوا کا رخ دیکھ کر مسلم لیگ میں شامل ہونے والوں کی لائن لگ گئی ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہوا کہ کوئی پیر سیالوی صاحب بھی شامل ہونے والوں میں شامل ہو گئے جو کچھ عرصہ قبل یہ الہامی فتویٰ دے چکے ہیں کہ جو بھی مسلم لیگ کو ووٹ دے گا، دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور اس کا نکاح بھی فسخ ہو جائے گا۔ دروغ برگردن دروغ گو، کسی نے پیر صاحب کو یہ فتویٰ یاد دلایا تو فرمایا، ووٹ دینا منع ہے، شامل ہونا منع نہیں۔ اور میں ووٹ دے کب رہا ہوں، میں تو ووٹ مانگوں گا__ فتویٰ اپنی جگہ، ’منافع‘ اپنی جگہ ۔