بھٹو نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ اپنا حلف اٹھاتے ہی سب سے پہلے زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کردیں گے، اور انھوں نے اپنی حکومت کی بسم اللہ اسی انتقامی کارروائی سے کی۔ انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں مخالف میڈیاکو ہمیشہ ٹارگٹ بنائے رکھا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، حسین نقی جیسے جید صحافیوں کو حوالات کی سلاخوں کے پیچھے پھینکا۔ ضیا ءشاہد بتایا کرتے تھے کہ انھیں بدنام زمانہ شاہی قلعے کی سرنگوں کے اندر بند کرکے ٹارچر کیا جاتا تھا۔ بھٹو نے’نوائے وقت‘ پر خاص نظرِ کرم کی اور اس قومی اخبار کے سرکاری اشتہارات بند کردیے۔ مصطفی صادق صاحب کے دل میں خیال آیا کہ نظامی صاحب کو بھٹو کے پاس لے جاتے ہیں اور ان کے اشتہارات بحال کروادیتے ہیں ۔ حکومت ِ وقت نے اس وقت ’نوائے وقت‘ پر اس قدر قیامت ڈھارکھی تھی کہ اخبار نیوز پرنٹ کی بجائے پکوڑوں والے لفافے کے کاغذ پر چھپا کرتا تھا۔ بھٹو کا دعویٰ تو یہی ہے کہ اس نے پاکستان کو پہلا آئین دیا۔ لیکن ادھر آئین منظور ہوا ، ادھر ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ عدالتیں بھی لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہ کرسکیں۔ بھٹو کے بعد ضیاءالحق کا گیارہ سالہ طویل مارشل لاءمیڈیا کے لیے سیاہ دور ثابت ہوا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ایک مہینے میں الطاف حسن قریشی نے ضیاءالحق کا خصوصی انٹرویو چھاپا، اور اگلے مہینے کسی تحریر چھاپنے کی پاداش میں انھیں حوالہ¿ زنداں کردیا گیا۔
ضیاءالحق نے سیاسی مخالفین کو ٹکٹکیوں پر چڑھایا اور ان کی ننگی پیٹھوں پر کوڑے برسائے۔ یہ ظلم سہنے والوں میں عباس اطہر اور خاور نعیم ہاشمی بھی شامل تھے۔ جنرل ضیاءکے دور میں کسی مخالف کی خبر کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک اخبار نویس نے گورنر جیلانی کے استعفے کی خبر دی ۔ کسی دوسرے رپورٹر نے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی طرف اشارہ کیا جس پر حکومت نے اخبار کی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر دونوں صحافیوں کی تصاویر صفحے اول پر چھپواکر انھیں نوکری سے نکلوادیا۔ روزنامہ ’نوائے وقت‘ میںحمود الرحمن کمیشن کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی تو میرے مرشد مجید نظامی کو حکم ملا کہ وہ متعلقہ رپورٹر کو حکومت کے حوالے کردیں۔ یہ خبر سیکرٹری جنرل ڈیفنس کے خلاف تھی۔ مجیدنظامی نے حکومت کو جواب دیا کہ اخبار کا مالک میں ہوں، رپورٹر نہیں۔ اس کی اشاعت کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے اس جرم میں کسی کو پکڑنا ہے تو مجھے پکڑلیں۔ میں گھر سے ضروری کپڑوں اور ادویات کا بیگ تیار کرکے دفتر لے آیا ہوں۔ مجھے اس سارے واقعے کا علم ہوا تو میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ آپ حوصلہ کیجیے، میں نے جنرل ضیاءالحق کے میڈیا پرسن بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ چھاپی تھی، جس میں سیکرٹری جنرل دفاع کے بارے میں کئی صفحات پر محیط مواد موجود ہے۔ میں گھر گیا اوریہ کتا ب لے آیا اور اس کتاب کا متعلقہ حصہ کتابت کرکے اخبار کے چاروں اسٹیشنوں کا ٹیلکس کردیا۔ اگلے روز اخبار چھپا تو آدھے ادارتی صفحے پر حمود الرحمن کمیشن والی خبر کی مکمل تفصیل موجود تھی۔ یہ دیکھ کر حکومت کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ صدیق سالک کی کتاب جی ایچ کیو کی منظوری اور مہر کے بعد شائع ہوئی تھی۔ اب وہ اسے کس طرح جھٹلاسکتے تھے ۔
ضیاءالحق کے بعد بظاہر تو جمہوریت کا دور دورہ تھا لیکن کسی جمہوری حکومت کے ہاتھوں بھی میڈیا کو خیر نہ ملی۔ میں اپنی بات کروں تو روزنامہ’نوائے وقت‘ کی اداریہ نویسی کرتے ہوئے میں نے جب بھی حکومت کو ناراض کیا تو میرے گھر چور بھجوادیے جاتے۔ 1986ءسے 1999ءتک میرے گھر یکے بعد دیگرے چوری کی تین وارداتیں ہوئیں، میری دو گاڑیاں اٹھوالی گئیں۔ 99ءمیں کارگل آپریشن کے دوران میں نے مجاہدین کے حق میں چند گنتی کے کالم لکھے تو وردی اور بغیر وردی والے غنڈوں نے مجھے گھر پر عقوبت کا نشانہ بنایا اور میرا گھٹنا توڑ دیا گیا۔ میرے ساتھ واردات سے قبل حسین حقانی اور نجم سیٹھی بھی حکومتی عتاب کا ٹارگٹ بنے۔
ایک اخبار سے ناراض ہوکر حکومت نے اس کا نیوزپرنٹ چھاپے خانے تک نہ پہنچنے دیا جس کی وجہ سے اخبار کی ضخامت کو کئی روز تک صرف چار صفحات تک محدود کرنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاءکے دوران بھی میڈیا کو رگڑا دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ حامد میر کا پروگرام بند کروایا گیا۔ ان کے ٹی وی چینل کے اسلام آباد آفس پر پنجاب پولیس نے دھاوا بولا اور ساری مشینری توڑ پھوڑ کر رکھ دی گئی۔ میرے مرشد مجید نظامی کی کلمہ حق پالیسی کی پاداش میں جنرل مشرف نے انھیں اپنی میڈیا بریفنگ میں بلانا بند کردیا۔ میں نے ایمرجنسی پلس پر کالم لکھا ، دن دیہاڑے پانچ ڈاکوؤں نے میری بہوؤں کا 45لاکھ کا زیور لوٹ لیا۔ زرداری دور میڈیا کے لیے سکون کا باعث بنا مگر اس کے بعد سے میڈیا کے خلاف پھر ایک قیامت برپا ہے۔ میں یہاں ملکی آئین کا حوالہ نہیں دینا چاہتا کہ اس نے آزادی ِ اظہار کی کیا کیا ضمانتیں دے رکھی ہیں کیونکہ اس آئین کی کسی شق پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اس آئین میںتکلف کے طور پر یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اتنے برسوں میں تمام ملکی قوانین اسلام کے سانچے میں ڈھل جائیں گے اور اتنے برسوں میں اردو زبان کو سرکاری دفتروں میں رائج کردیا جائے گا۔ لیکن یہ سہانے خواب سراب ثابت ہوئے تو یہاں آزادی اظہار کا تحفظ کس سے مانگا جائے ؟
میں نے یہ کالم صرف تاریخ کے ریکارڈ کے طور پر رقم کیا ہے ورنہ مجھے چنداں حیرت نہیں کہ پچھلے چند دنوں میں چودھری غلام حسین، کاشف عباسی اور ہارون الرشید کے پر کاٹ دیے گئے مگر مجھے اس قدر تعجب ضرور ہے کہ ابھی تو وہ حکومت آئی نہیں جس پر تنقید کے جرم میں میرے ان دوستوں کو سزا دی گئی ہے۔ ویسے یہ روایت بھی کوئی نہیں کہ آنے والی حکومت کے مبینہ مخالفین کو روزی روٹی کمانے سے محروم کردیا جائے۔ 2018ءمیں پنجاب کی نگران حکومت نے شعیب بن عزیز کو آنے والی حکومت کا مخالف گردان کر نوکری سے برطرف کردیا تھا ۔