اسرائیلی حملوں سے غزہ پٹی میں اب تک شہید افراد کی تعداد 12 ہزارسے تجاور کرگئی ہے۔ اب تک 4 ہزار 630 بچے اور 3 ہزار 130 خواتین بھی شہید ہوچکی ہیں۔ اسرائیل کے سینئر سفارت کار نے کہا ہے کہ غزہ میں حکمران حماس کے خلاف جنگ سے ہونے والے انسانی نقصان پر عالمی سطح پر دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن توسیع کے لیے قانونی جواز ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی دباؤ عروج تک پہنچنے تک ہمارے پاس دو یا 3 ہفتے ہیں لیکن وزارت خارجہ قانونی جواز پیدا کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور جنگ جب تک ضروری ہو جاری رہے گی۔ ادھر، القدس ہسپتال کے اطراف میں اسرئیلی فوج کی شیلنگ، دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اورآخری خبریں موصول ہونے تک بھی شدید فائرنگ جاری تھی۔ اسرائیلی بربریت کے خلاف پوری دنیا میں ہونے والے شدید احتجاج اور مظاہروں سے عالمی طاقتوں پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، اگر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد الحادی قوتیں اسرائیل کے جنونی ہاتھوں کو روکنے پر مجبور ہو سکتی ہیں۔ تین روز قبل امریکی محکمہ خارجہ اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (یو ایس ایڈ) کے درجنوں عہدیداران نے ایک اندرونی میمو پر دستخط کیے ہیںجس میں غزہ میں فلسطینیوں کی زندگیوں کو اہمیت نہ دینے پر وائٹ ہاؤس پر تنقید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے، برطانوی روزنامہ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، ایک امریکی عہدیداران نے اس میمو پر دستخط کرتے ہوئے غزہ جنگ کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کی حکمت عملی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس اس جنگ کو روکنے کے لیے تیار نہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل اور لبنان کے حزب اللہ کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ امریکا کے اس کردار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس جنگ کو روکنے کے بجائے مزید ہوا دینا چاہتا ہے۔اس لیے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤ بھی بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے اسلامی ممالک بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مسلم دنیا کی طرف سے طاغوتی قوتوں کے خلاف متحد ہو کر عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے اسرائیلی دہشت گردی کو نہیں روکا جا سکتا۔