آنے والا وزیر اعظم پاکستان کا ہوگا ، کسی صوبے کا نہیں

امیر محمد خان 
میاں نواز شریف کی آمد سے یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ اب انتخابات ہونگے اور اسکا ماحول بن گیا ، اسوقت حاضر اسٹاک میں نواز شریف سے زیادہ جہان دیدہ سیاست کوئی اور مارکیٹ میں نہیں ، آصف علی ذرداری کے متعلق کہا جاتا رہا ہے کہ وہ شطرنج کے کھلاڑی ہیں اور سیاست کو اسی نکتہ نظر سے کھیلتے ہیں،مگر اسوقت لگتا ہے کہ آصف علی ذرداری اور بلاول بھٹو خود آپس میں بھی ایک صفحے پر نہیں ۔ ہمارے سیاست دان اپنے روائیتی انداز میں الزام تراشیوںکے بیانات شروع کرچکے ہیں ، پی ٹی آئی کے نئے نئے سے مبینہ کیس سامنے آرہے ہیں اب ”گوگی “ کے پاسپورٹ کا سنگین کیس بھی آگیا ہے یہ ہماری روائت ہے کہ حکومت جانے کے بعد ہی تمام بدعنوانیوں ، خرابیوں کو سامنے لایا جاتا ہے ۔ گوگی پاسپورٹ کیس میں تمام ادارے جب یہ سب کچھ ہورہا تھا نہ جانے چین کی نیند کیوں سورہے تھے ۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اب جہانگیر ترین کے جہاز میں سوار ہوچکے ہیں اور انہیںپی ٹی آئی میں رہتے ہوئے اس بات کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کو بھی علم ہوگا ، مگر اب وہ سب شائد ”تیزاب “سے نہا چکے ہیں اورمحب وطن بن گئے ہیں وہ پوری آب و تاب سے میدان میں ہونگے انتخابات میں ، جب محترمہ گوگی ایک ایسے ملک کا پاسپورٹ بناکرملک سے باہر جارہی تھیںتو وہ ادارے نیب ، تحقیقاتی ادارے وہ سب کہاں تھے ، اس لئے گوگی یا پی ٹی آئی کو الزام دینے کے بجائے اگر ان لوگوںکا وجود ہے تو انہیں سزا دی جائے ہمارے ہاں یہ روائت ہے کہ پینڈورہ باکس حکومت سے علیحدگی کے بعد ہی کھلتا ہے اسی طرح پی ٹی وی پر چند روز پہلے چلنے والی زبان ذد عام ہونے والی ملک دشمن دو خبریں کیسے چلیںمورخ حکومت کے جانے کے بعد ہی شائد نکالے گا ۔بہرحال فروری میں ہونے والے انتخابات کیلئے تمام جماعتیںمیدان میں کود پڑی ہیں ، مسلم لیگ ن اب سندھ میں بھی زور آزمائی کا ارادہ لیکر اپنے پرانے حلیف ایم کیوایم سے جا ملی ہے میںنے پہلے بھی تحریر کیا ہے کہ ایم کیوایم ، ق لیگ ، بلوچستان کی چھوٹی جماعتیںکسی بھی گاڑی کے وہ پہئے ہوتے ہیں جنہیں جب بھی حکومت گرانی ہو ان پہیوںکو نکال لیا جاتا ہے اور حکومت کا دھڑن تختہ ہوجاتا ہے یہ پاکستان میں حکومتوںکی تاریخ ہے ۔ بہر حال ایم کیوایم اور مسلم لیگ ن کے اتحاد پر پیپلز پارٹی کا سیخ پا ہونا بنتا ہے چونکہ پی پی پی سندھ کو جہاںوہ گزشتہ تقریبا پندرہ سال سے حکومت کررہی ہے اور وہاںکے عوام بے شمار مسائل سے دوچار ہیں وہ اس صوبے کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے ،پی پی پی کی سب سے بڑا گناہ یہ ہوتاہے کہ جب بھی حکومت نہ ملنے کی صورتحال نظر آتی ہے تو وہ صوبائی ، لسانی کارڈ کا استعمال کرتی ہے ، جیسے کہ حال میں کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم وہ بنے گا جس کے پاس سندھ کا ڈومیسائل ہوگا ، وزیر اعظم پنجاب یا لاہور کا نہیں ہوگا ۔ تاویلات عجیب ہوتی ہیں ، ٹاک شوز میں کہتے ہیں ہم نے کبھی نہیںکہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نہیںہونگے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم سندھ سے ہوگا ۔ اب کوئی بتائے کہ اسکا کیا مطلب ہے ؟؟؟کیا نوازشریف سندھ کا ڈومیسائل لیں؟پی پی پی پاکستان کی جماعت بنکر پورے ملک میں راج کرنے کی خواہش مند ہے مگر سوچ سندھ سے آگے نہیں بڑھتی ، سندھ کے غریب عوام کی دیکھ بھال بہتر انداز میں کرچکے ہوتے تو ملک یا بقیہ صوبوں میں حکومت کرنے کی خواہش سمجھ میں آتی تھی ۔ادھرمیاں صاحب کو اگر اللہ نے پھر انتخابات کا موقع دیا ہے تو انہیں چھان پھٹک کر ٹکٹ
 تقسیم کرنا پرینگے ، مسلم لیگ ن کو چاہے جتنی بھی نشستیںملیں اسکے لئے یہ انتخابات آخری موقع ہیں اس وقت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج اچھے امیدواروں کا چناﺅ ہوگا۔اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں کسی بھی قسم کی رعایت برتی گئی تو مسلم لیگ ن کو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے دو پیمانے رکھنا ہونگے۔قابل بھروسہ ہونا شرط اول ہے جبکہ آپکا امیدوار ریس میںدوڑنے کے حوالے سے ہر حوالے سے موزوں ہو۔پارٹی ٹکٹ سے ہٹ کر بھی امیدوار کا ذاتی وزن جانچ کر اسے ٹکٹ دینا ہوگا،وگرنہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں میاں نوازشریف کو تمام اہم فیصلے اپنی نگرانی میں کرنا ہونگے۔اس وقت موسمی سیاستدان رائیونڈ اور ماڈل ٹاﺅن کی منڈیروں پر منڈلارہے ہیں۔ایسے سیاستدانوں کا رش لگنا شروع ہوگیا ہے،جنہیں خود بھی یاد نہیں کہ انہوں نے آخری الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کیلئے کوشش کرنے والے ایسے سیاستدانوں کی سفارشیں بھی کافی تگڑی ہونگی،ممکن ہے مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما انہیں ٹکٹس دینے کے حامی ہوں۔ مگر میاں نوازشریف کو ساری صورتحال کا ذاتی طور پر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔مسلم لیگ ن کے قائد کو اس دشت کی خاک چھانتے ہوئے تقریباً چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔پنجاب کی انتخابی سیاست پر وہ انتہائی عبور رکھتے ہیں۔ چونکہ ،مرکزی حکومت اسی کے حصے میں آئے گی جسکے پاس تخت لاہور ہوگا ۔اس لئے پنجاب کے انتخابی حلقوں میں ہی اصل سیاسی لڑائی لڑی جانی ہے پارلیمانی بورڈ کا کوئی بھی ممبر کسی بھی فیصلے میں جانبداری سے کام نہ لے اور اگر وہ کسی غلط امیدوار کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے جان بوجھ کر غلط رائے پارٹی کو دے تو اسے پتہ ہو کہ اگر یہ امیدوار ہار گیا یا جیتنے کے بعد پارٹی پالیسی کی پابندی میں ناکام رہا تو اس کے ساتھ ساتھ میرا اپنا بھی سیاسی مستقبل داﺅپر لگے گا ، جو 9 مئی کے سانحہ کے بعد اپنی منجھی تلاش کررہے ہیں ان سے دور ہی رہیں چونکہ یہ لوگ کسی بھی مشکل وقت میں ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے والے پہلے لوگ ہوتے ہیں گزشتہ پانچ سال میں جو لوگ اچھے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے،انہی لوگوں کو آزمائیں۔ چوہدری نثار ، خاقان عباسی کو منائیں تاکہ وہ آپکو صحیح مشورہ بھی دے سکیں رہا پیپلز پارٹی کی تکلیف کا توپےپلز پارٹی کے پاس ماسوائے سندھ کارڈ اور کچھ بھی نہےں ہے۔سندھ کا ووٹ بھی صرف اس لےے حاصل کرلےتے ہےں کہ مسلم لےگ نے سندھ مےں پہلے اتنی توجہ نہےں دی تھی سوشل میڈیا پر تجربہ کار لوگ تعینات ہوں چونکہ الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ایک اہم مقام رکھتا ہے تحریک انصاف اگر آج تک معروف جماعت کا درجہ رکھتی ہے اپنے جھوٹے سچے بیانیوںکے ذریعے ، تحریک انصا ف اپنے لیڈر کی پالیسوںکی وجہ سے نہ چھٹکارہ پانے والے مقدمات میں پھنس چکی ہے اگر عدالتیں روائتی انداز میں مقدمات کا فیصلہ نہ کریں تو مثبت یا منفی فیصلے ہوجائینگے ۔ نیز ایک درد مندی پاکستانی کی حیثیت میں پی پی پی کو مشورہ ہے کہ ملک کو لسانی ، علاقائی کے بھنور میں نہ دھکیلے جو بھی وزیر اعظم ہوگا وہ پاکستان کو ہوگا نہ سندھ کا نہ پنجاب ، بلوچستان یا سرحد کا پی پی پی بہتر ہے یہ سوچے کہ اس نے اپنے قائد ذولفقار علی بھٹو شہید کے لگائے گئے پاکستان اسٹیل ملز کا کیا حشر کیا اسی طرح دوسرے معاملات بھی ہیں ۔ ممکن ہے کہ آپ کی جماعت کو حصہ ضرور ملے۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ماضی کی طرح حصہ آپ کی خواہش کے مطابق نہ ملے لیکن حصہ ضرور ملے گا۔ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہیں اور پی پی پی کی قیادت اس حقیقت سے واقف ہے کیا نہوں نے پنجاب میں  واپسی کے لیے کچھ کیا ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن