مسئلہ فلسطین پر ہماری خاموشی 

کالم : لفظوں کا پیرہن 

تحریر: غلام شبیر عاصم 

عالم تصور میں کئی بار اپنے معاشرے کے لوگوں کے اندر جھانکا اور تلاش کیا ہے،مجھے ان لوگوں،باشندوں،پر بریدہ پرندوں اور ہوس کے درندوں میں قوم اور قومیت والی کوئی صفت یا چلن نظر نہیں آیا۔بس ایک ہجوم ہے جس میں محشر کی سی افراتفری ہے۔ہمیں قوم کے بجائے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔دیہاتی وسیب میں مستعمل بھیڑ بکریوں سے جڑا ہوا ایک محاورہ"بھیڑ چال"بھی ہے۔یعنی ایک دوسرے کو دیکھ کر بغیر سوچے سمجھے کسی راہ و اطوار پر چل پڑنا چاہے اس کا انجام کنویں میں گرنا ہی کیوں نہ ہو۔ہم بھیڑ بکریوں کا ریوڑ کہلوانے کے باوجود بھی کسی مثبت اور تعمیری حوالے سے بھیڑ چال نہیں چلتے،کہ کسی ایک شخص یا اصول کی پیروی میں بغیر سوچے سمجھے کسی عملِ خیر کے لئے قدم اٹھاتے چلے جائیں۔ہم فضول اور وقتی سے فائدوں کی خاطر "بھیڑ چال" کے محاورہ کی عملی طور پر تصویر و تفسیر پیش کر رہے ہیں۔ کسی بڑے مقصد کے لئے بڑے امتحان کے ڈر سے بھیگی بلی بن کر کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ہم فقط شور و غوغا کرنے اور میڈیا کوریج کے لئے ریلیاں اور جلوس نکالنے والے لوگ ہیں،یک مشت ہوکر عملی طور پر کسی نظریاتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑے ہونے سے کتراتے ہیں۔کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے ہماری ابھی تک اصلاح ہی نہیں ہوسکی،ہماری تربیت ہونا ابھی باقی ہے۔حالانکہ ہم ایک مکمل ضابطہ حیات اور مرقع اخلاقیات(قرآن و حدیث) کے وارث ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔پھر بھی ہم روز مرہ کی زندگی میں بجائے محبت اور صلہ رحمی کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر نفرت اور بغض و عناد ہی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔اپنی انا اور تکبر میں کمی نہیں آنے دیتے۔ ہماری بے حسی اور اخلاقی افلاج کی یہ حالت ہے کہ کسی بہت بڑے مقصد کی خاطر مستحکم ہونے اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنے میں ہم ہمیشہ کمزور ہی پائے گئے ہیں۔لگتا ہے ہمیں دنیاوی خواہشاتِ نفسانی نے اس قدر اندھا کردیا ہے کہ کسی بڑے مقصد کی خاطر اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو نہیں تیاگ سکتے۔حالانکہ ہمارے ہاں روزہ اور نماز کا نقطہ ارتکاز یہی ہے کہ اپنے اندر ایسی قوت اور تقویٰ کو پیدا کیا جائے کہ ہم نفسانی خواہشات کے محاذ پر نفس امارہ اور نفس مطمئنہ کی جنگ میں اپنا لہو گرم رکھیں باالاخر ہم نفس امارہ کی سرکوبی کرکے نفسِ مطمئنہ کا پرچم لہرا کر تقوٰی کی منزل حاصل کرسکیں،اور پھر اس ایمانی اور روحانی تقویت کے بل بوتا پر جغرافیائی سرحدوں پر بھی جہاد کے لئے اٹھ سکیں۔نفسِ امارہ کی پیروی اس قدر ہماری زندگی میں گ±ھس آئی ہے کہ ہم اس سے ج±ڑی ہوئی اپنی مجبوریوں اور خواہشات میں اپنے"ملکوتی پ?ر"پھنسا کٹوا بیٹھے ہیں۔اگر ہم"پر"رکھتے بھی ہیں تو حضرت اقبال کے ان شاہینوں کے پروں میں اب زور پرواز باقی نہیں رہا۔ان دنوں فلسطین اور اسرائیل کی جنگ جاری ہے، اب تک
شہداءکی تعداد 11 ہزار 200 سے بڑھ گئی ہے، صیہونی طیاروں نے بم گرا کر مساجد ، سکولوں اور ہسپتالوں کو قبرستان میں بدل دیا ہے۔عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے ا?ئی سی یو کے تمام مریض دم توڑ گئے ہیں۔
ہمیں چاہئیے کہ کم ازکم ان یہودیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔میڈیا پر اس جنگ کے خونیں مناظر دیکھنا برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔فلسطین پر اسرائیلی مظالم دیکھ کر آنسو "خیمہ دل"سے نکل کر پلکوں پر آجاتے ہیں،لگتا ہے کوئی ہمیں پکار رہا ہے۔گویا اذنِ شہادت پا کر کسی جری مجاہد کی طرح پلکوں پر آ کر چمکنے والے آنسو نہ جانے مڑگاں سے لپٹ لپٹ کر کیوں رونے لگ جاتے ہیں،دل کرتا ہے کہ ابھی سامان جنگ سے لیس ہو کر سوئے فلسطین روانہ ہوجائیں،مگر کوئی مجبوری ہے جو پاوں کو جکڑ سا لیتی ہے۔ یہ مجبوری صرف میرے ہی پاوں کے لئے زنجیر نہیں بنی ہوئی۔ بڑی بڑی "زنجیر شکن " بلکہ پربت شکن قوتوں کے پاوں میں بھی یہ زنجیر"زنجیرِ غلامی" کا منظر پیش کررہی ہے۔فلسطینی مسلمانوں کی آنکھیں تو اب پتھرا گئی ہیں ہماری طرف دیکھتے دیکھتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں رہ ہی نہیں گئیں، آزادی کی خاطر فلسطینیوں کی نظریں بارود کی نذر ہوگئی ہیں۔دیکھا جائے تو فلسطین ہی صیہونی قوتوں کی سازشوں شکار نہیں ہے،کسی نہ کسی طرح سے پورا عالم اسلام تختہ مشق بننے کو ہے۔یہی ہے وہ وقت جس کے لئے کہا گیا تھا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
 نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
دیکھا جائے تو اسلام کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہورہا ہے۔اس صورت حال میں ضروری ہے کہ رنجشیں مٹا کر عالمِ اسلام اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔حضرت علامہ اقبال نے تو کہا تھا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم 
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مگر اب صورت حال اس کے برعکس ہے کہ ہم اپنے اپنے مفادات کے لئے"باطل"کے قدموں میں پڑے وفاداری جگا رہے ہیں۔اور آپس میں دلوں میں نفرت اور کینہ رکھے ہوئے گوشت اور خون کے لوتھڑے کو فولاد بنا لیا ہے۔جو تڑپنے،پسیجنے اور پگھلنے کی ہیئت سے گویا عاری ہوچکا ہے۔درد سے بلکتے اور کراہتے ہوئے فلسطینی بچے ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے ہوئے دیکھے نہیں جاتے۔ایسے روح فرسا مناظر دیکھنے کے باوجود بھی ہم اس خاموش جہاد کا حصہ نہیں بن رہے کہ وقتی طور پر ہی سہی اپنے منہ کے ذائقہ کی قربانی دیتے ہوئے یہودیوں کی تیارکردہ اشیائے خورد و نوش کا بائیکاٹ کردیں۔مگر ہم اپنی زبان کے ذائقے کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ یہودیوں کی تیار کی گئی بوتلوں(کول ڈرنکس) کو غٹاغٹ پی کر بلاشبہ ان کی معیشت کو مضبوط کررہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف ہمارے فلسطینی بھائیوں کے بہت بڑے واٹر پلانٹ کو بم گرا نیست و نابود کردیاگیا ہے۔یہ کربلائی صورت حال قبلہ اول کے تقدس کی خاطر"ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے" کا تقاضا کررہی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال پر عالمِ اسلام کی خامشی پر فلسطین مایوسی و افسوس سے انگشت بدنداں ہے۔اگر ہم نے ہٹلر سے بچے ہوئے ان یہودی سپولوں کے سروں کو نہ کچلا تو خاکم بدہن تباہی کے اس سمندر کی لہریں ہمیں بھی ہڑپ کر جائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن