”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے“


راہ حق ....ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 
11 نومبر2023 کوسعودی عرب کی میزبانی میں ریاض میں ہونے والے عرب لیگ اور او آئی سی کے مشترکہ اور غیر معمولی اجلاس کے اعلامیہ میں غزہ میںفوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ اوآئی سی امت مسلمہ کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہی ہے ،مظلوم فلسطینی عوام مسلم ممالک کے حکمرانوں کی جانب دیکھ رہے ہیںمگرمسلم حکمران اوآئی سی کے اجلاس میں صرف اسرائیلی مظالم کی مذمت اورمطالبات کررہے ہیں افسوس سے کہناپڑتاہے کہ کوئی بھی مسلم حکمران مظلوم فلسطنیوں کامقدمہ لڑنے کے لیے تیارنہیں ۔ گزشتہ ایک ماہ سے اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کاقتل عام کررہاہے غزہ کوزندہ انسانوں کاقبرستان بنادیاگیااسرائیلی فوج نے ہسپتال اورکیمپ تک نہیں چھوڑے زخموں سے چورمظلوموں پربم اورمیزائل برسارہاہے ایک ماہ کے بعدمسلم حکمرانوں کوہوش آیااورانہوں نے اوآئی سی کااجلاس بلایاجس سے امت مسلمہ میں ایک امیدکی کرن پیداہوئی کہ مسلم حکمران غزہ کادورہ کرکے مظلوموں سے اظہاریکجہتی کریں گے یاخلیجی ممالک میں امریکی اڈوں سے اسرائیل کوجواسلحہ فراہم کیاجارہاہے اس کی روک تھام کے لیے کرداراداکریں گے اورجوممالک اسرائیل کوتیل فراہم کریں گے وہ اپنی سپلائی بندکرنے کااعلان کریں گے مگراوآئی سی ایک مرتبہ پھرمردہ گھوڑاثابت ہوااوآئی سی کااعلامیہ مایوس کن ہے جس سے امت مسلمہ کے زخمی دل مزیدزخمی ہوئے ہیں ۔ اسلامی دنیا کے حکمران فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کاتماشہ نہ دیکھیں بلکہ جنگ بندی،اسرائیلی دہشت گردی رکھوانے میں فوری کرداراداکریں۔برطانیہ و امریکہ کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی ودہشت گردی کررہاہے،فلسطینیوں کی امداد کے لیے آگے بڑھ کر تعاون کیا جائے،غزاکے محصوراور مظلوم فلسطینیوں کے لئے خوراک اور ادویات پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ہاتھ کوبھی روکاجائے ۔اسرائیل صرف بیانات اورمطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے گا عالمی استعماری قوتوں کے مکروہ عزائم اب کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ اقوام عالم غزہ کے مظلوم کی جانب سے مسلسل چشم پوشی کر رہی ہے ان کی خاموشی یا اسرائیلی حمایت انسانیت کی تذلیل اور مجرمانہ غفلت ہے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت اسرائیلی کیخلاف ڈٹ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں
 اسرائیلی وزیر کی طرف سے ایٹم بم چلانے کی دھمکی دراصل اس انسان دشمنی اور اس کھیل کا سلسلہ ہے جو 1945-46 میں امریکہ نے جاپان میں کھیلا تھا۔ امریکہ کو آج تک جاپان میں ایٹمی حلے پر سخت ترین سوالات کا سامنا ہے ۔اقوام متحدہ نے 2015میں رپورٹ جاری کی تھی کہ اگر معیشت کا یہی حال رہا تو اگلے پانچ سال میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ۔مگر ان تمام گزرے سالوں میں بے روز گاری غربت اور دیگر سماجی مسائل سے لڑتے غزہ کے شہری اسرائیلی جارحیت کا بھی مسلسل بہادری سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے بھی اسرائیلی افواج کے سفاک اور وحشیانہ حملے برداشت کر رہے ہیں ۔پہلے غزہ اور مصر ± کے درمیاں رفح کراسنگ پر فضائی حملہ اور نارتھ میں جبالیہ ریفیوجی کیمپ پر حالیہ بمباری تمام بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔جنگی جرائم اپنے عروج پر ہیں اور اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تمام قرار دادیں مسترد کی جا چکی ہیں ۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی بھی جنگ کے دوران خواتین ،بچوں اور عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ۔مگر اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اپنے توسیعی منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا نے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اسرائیلی آرمی کے ترجمان کا حالیہ بیان کہ ”ہم غزہ پر سینکڑوں ٹن بم گرا رہے ہیں، توجہ تباہی پر ہے، درستگی پر نہیں “اسرائیل کے عزائم پوری طرح واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور بظاہر دنیا میں امن کے ٹھیکے دار اس عمل میں سہولت کاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں ۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو حماس کی جانب سے “طوفان الاقصیٰ‘ نامی آپریشن کی جوابی کاروائی قرار دیا جا رہا ہے اور حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں اسرائیلی میڈیا اپنے عوام کو اشتعال دلوانے کے لیے چند جعلی ویڈیوز کا سہارا لے رہا ہے تا کہ اپنے عوام کو تمام مکروہ اعمال کا جواز پیش کیا جا سکے ۔ اب تک غزہ میں پانچ ہزار سے زائد عام شہری جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اسرائیل کے جنگی جنون کا نشانہ بن چکے ہیں اور اور ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہیں ۔
حرف آخر:
اس وقت تک غزہ میں 12 ہزار افراد شہید ہو چکے جن میں 4600 سے زیادہ بچے اور 3000 کے لگ بھگ خواتین شامل ہیں۔ ہم بھی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیںکیا ہماری حکومت نے جس طرح حق بنتا ہے اس حق اور اہمیت کے شایان شان اسرائیل کے خلاف سخت بیان نہیںدیا۔اکثر مسلم ممالک امریکی خوشنودی میں اس حد تک بے بس ہو چکے ہیں کہ اپنے مسلمان بچوں اور عورتوں کی چیخیں بھی سنائی نہیں دے رہیں اللہ پاک نے ایسے موقعوں کے لیے جہاد فرض کیالیکن اس کے ہمت اور ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے!!

ای پیپر دی نیشن