طارق جان...............
حمید اختر صاحب پرانے لکھنے والے ہیں‘ ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے آدرش سے مخلص ہیں اور کبھی کبھار کھل بھی جاتے ہیں۔ جب سے سوویٹ یونین مرحوم ہوا ہے‘ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں اور یہ بات غلط بھی نہیں کیونکہ اشتمالیت (کمیونزم) میں سے اگر آپ پرولتاری آمریت اور اجتماعی ملکیت کے تصورات کو نکال دیں تو وہ اپنی اصل میں موجودہ سیکولرازم کے قریب تر ہے۔
موصوف نے اپنی حالیہ تحریر میں چند اساسی نوعیت کی باتیں کی ہیں‘ مثلاً انہیں دکھ ہے کہ لوگ سیکولرازم کو لادینیت کیوں کہتے ہیں‘ جبکہ سیکولرازم سے مراد مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھنا ہے۔ دوئم جو لوگ اس ملک میں اسلامی نظام کے احیاء کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تاریخ سے لاعلم ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جب خلفاء امیہ اور عباسیہ نے موروثی بادشاہت اختیار کی تو وہ سیکولر تھی میں انہی دو بنیادی نکات سے متعلق چند گزارشات پیش کروں گا۔ آیا سیکولرازم لادینیت ہے یا نہیں‘ تو اس کا انحصار اسکے جوہر سے ہے‘ اس کا فیصلہ نہ میں کر سکتا ہوں‘ نہ موصوف۔ اس کیلئے ہمیں معروضی ماخذوں کی طرف جانا پڑیگا جو سیکولر حضرات دانستہ نہیں جاناچاہتے۔ محض یہ کہہ دینا کہ سیکولرازم ریاست اور مذہب میں تفریق چاہتا ہے‘ مکمل سچائی نہیں بلکہ ہمیں دیکھنا پڑیگا کہ سیکولرازم واقعتاً چاہتا کیا ہے؟ یوں تو سیکولرازم کی تعریف متعین کرنے میں بہت سے نام لئے جا سکتے ہیں جیسے جارج ہولی اوک‘ پیٹر برجر‘ ہاروی کاکس‘ میکس ویبر‘ ور جلیئس فرم‘ ولیم لیکی اور برنارڈ لوئیس وغیرہ لیکن چونکہ ہولی اوک کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ہی پہلے اس اصطلاح کو متعارف کرایا تھا‘ اس لئے اسی سے شروع کرنا چاہیے۔ اسکے نزدیک:
’’سیکولرازم نام ہے‘ اس ضابطے کا‘ جس کا تعلق دنیا سے متعلق فرائض سے ہے‘ جس کی غایت خالصتاً انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر ان (افراد) کیلئے ہے جو الہٰیات کو نامکمل یا ناکافی ناقابل اعتبار یا ناقابل یقین (یعنی فضول اور بے معنی) سمجھتے ہیں۔‘‘
بقول ہولی اوک سیکولرازم میں خدا کا متبادل سائنس ہے‘ اسکے اپنے الفاظ میں: \\\"Science is the available providence of man.\\\" باالفاظ دیگر سیکولرازم اسی وقت بطور نظریہ سامنے آتی ہے جب انسان مذہب سے غیرمتعلق ہونا شروع کر دے۔ اسے مذہب میں اپنے مسائل کا حل نہ ملے‘ یا پھر وہ یہ سمجھے کہ مذہبی عقائد ناقابل یقین ہیں۔ کھل کر کہا جائے تو سیکولرازم ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جسے مذہب کا متبادل کہا جا سکتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکن مفکر رابرٹ گرین نے سیکولرازم کو انسانیت کا مذہب قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دنیا کو سمجھنے کیلئے انسان کو مذہب اور نیم مذہب نقطہ نگاہ سے نکالنے کا نام ہے‘ یعنی انسان کو ان تمام مذہبی علامتوں اور مافوق الفطرت افسانوں سے آزاد کرنا ہے تاکہ وہ آخرت کی طرف نہ دیکھے اور محض دنیا کے ہنگاموں میں مصروف عمل رہے۔
ہولی اوک کی سیکولرازم کی تعریف سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مذہب ’’اس دنیا‘‘ کیلئے ہے جبکہ سیکولرازم ’’اس دنیا‘‘ کیلئے ہے۔ سیکولر حضرات دین اور دنیا کی تقسیم کو سیکولرازم کی اساسی فکر بتاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام جیسا دینی نظریہ آخرت کو بڑی اہمیت دیتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی دنیا کو اسکی کھیتی قرار دیتا ہے۔ بغیر اس دنیا کے آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لئے مسلمانوں کے ہاں دین اور دنیا میں تفریق نہیں کہ یہ ایک ہی سلسلہ حیات ہے‘ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ ایسا کونسا الہامی مذہب ہے جو آئے تو دنیا کیلئے اور پھر خود ہی جنگلوں اور پہاڑوں میں منہ چھپا کر بیٹھ جائے؟ کیا اس طرح کوئی مذہب جو اجتماعی میلانات رکھتا ہو یا نظریہ‘ زندہ رہ سکتا ہے؟ طوالت سے بچنے کیلئے میں دیگر مفکرین کی تحریروں کا ذکر نہیں کرونگا‘ جنہوں نے سیکولرازم کے مفہوم متعین کئے ہیں لیکن بہرطور ان سب میں قدر مشترک یہی ہے کہ انسانوں کو اپنے معاملات کے حل کیلئے کسی خدا‘ مذہب‘ روایت‘ تاریخ اور الہامی اخلاقیات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان خود مکلف اور اس قابل ہے کہ وہ اپنی عقل ہی کو اپنی سوچ اور فکر کا محور بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولرازم اصرار کیساتھ یہ کہتی ہے کہ کوئی دوسری دنیا نہیں۔ یہ زندگی کا ضیاع ہے کہ اسے آخرت کے خوف سے مطلق کردیا جائے‘ اگر بات یہیں تک محدود ہوتی‘ یعنی محض فلسفیانہ حد تک تو کوئی بات نہ تھی اور نہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ ہر ایک کی اپنی سوچ اور ضمیر کی بات ہے کہ وہ کیا خیالات رکھنا چاہتا ہے لیکن جب ایسی سوچ ایک نظریہ آئیڈیالوجی کی شکل اختیار کرتی ہے اور سیاسیات‘ معاشیات‘ اخلاقیات اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کو تمام تر ریاستی مشینری کیساتھ اپنے دائرہ تصرف میں لانا چاہتی ہے تو سیکولرازم مسئلہ بن جاتی ہے۔
٭ اس ساری بحث کے بعد پوچھا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ انسانی معاملات کو اپنی جکڑ میں لے؟ ٭ وہ کیوں خود تو ریاستی امور کو کنٹرول کرے اور مذہب کو سیاست سے باہر رکھے؟ جبکہ مذہب یہ دعویٰ رکھتا ہو کہ وہ انسانی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔ ٭ عقل کا وہ کونسا پیمانہ ہے جس سے سیکولرازم کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود تو کلیّت پسند بن جائے اور خدا اور اخلاقیات کو انسانی دائرہ کار سے بے دخل کرکے اپنے آپکو ’’سچائی واحد‘‘ قرار دے۔
تو جناب حمیداختر بات محض سیاست کو مذہب سے دور رکھنے کی نہیں‘ یہ بات کچھ اور ہے جسے آپ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپکے ہمرکاب ساتھی تو وہ سب کچھ اندرون متن یا زیر سطور کہہ رہے ہیں جن سے انکی اسلام دشمنی واضح ہوتی ہے۔ مثلاً مشرف کے نامشرف دور میں وزیراعظم شوکت عزیز نے خشک سالی سے نجات کیلئے عوام سے دعا اور نماز استسقاء کی اپیل کی تو جواب میں آپکے ممدوح پرویز ہود بھائی نے روزنامہ ڈان میں طنزاً لکھا کہ بارشیں نمازوں سے نہیں آتیں‘ یہ تو قانون فطرت کیمطابق بادل بنتے ہیں اور برستے ہیں۔ پرویز ہود یا بے ہود بھائی لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ ’’قانون فطرت‘‘ کس کے اماں باوا نے بنائے ہیں تو پاکستان کے ’’جذباتی‘‘ مذہبی عوام کے علم میں اضافہ ہو جاتا۔ آپ نے خود اپنے ایک گزشتہ کالم میں ’’داڑھی‘‘ والوں کے بارے میں طنزاً فرمایا کہ موجودہ حالات میں ان سب کو پکڑ لیناچاہیے۔ یہ تو پھر معمولی بات ہے، بینا سرور تو چاہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کی اہانت کی اجازت ہونی چاہئے۔ میں یہاں بوجہ خوفِ فساد اُسکا کہا ہوا نقل نہیں کرناچاہتا۔ اس سب کے باوجود ستم ظریفی دیکھیں کہ سیکولر حضرات زندگی کی ہر روش اور چلن سے مذہب کو کھرچ کھرچ کر نکالناچاہتے ہیں اور پھر پوپلا منہ بنا کر عوام کی طفل تسلی کیلئے کہتے پھرتے ہیں کہ نہیں ہم تو مذہب کیخلاف نہیں۔ دوسرا مستند ماخذ جو یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ سیکولر ازم لادینیت ہے یا نہیں خود قرآن حکیم ہے‘ مثلاً سیکولر حضرات نفاذ شریعت کیخلاف ہر وقت مورچہ زن رہتے ہیں اور ساتھ ہی ’’ فرماتے‘‘ جاتے ہیں ہم مذہب کیخلاف نہیں۔ قرآن ایسے تصورات اور رویوں کو کفر سے تعبیر کرتا ہے، میں اپنی بات کی تائید میں سورہ البقرۃ کی آیت85 کا حوالہ دونگا۔ ’’ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں تو انکی سزا سوائے اسکے کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہواور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں‘‘۔ سورۃ المائدہ42 میں یہی بات کہی گئی ہے۔’’ جو لوگ خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کیمطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
اب آپ ہی فرمائیں کہ سیکولر ازم کو لادینیت اور کفر نہ کہاجائے تو کیا کہاجائے۔ اصل میں سیکولر حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یورپین مذہبی تجربے کو پاکستان کے معاشرتی منظر نامہ پرتھوپنا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام عیسائیت نہیں اور نہ مسلم دنیا مغربی تہذیب کا حصہ ہے‘اسی لئے اس سارے عمل سے جو نتیجہ وہ نکالتے ہیں وہ غلط اور گمراہ کن ہوتا ہے۔ حمید اختر صاحب کا دوسرا مقدمہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں ہی کی موروثی بادشاہت کو سیکولر کہنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس سے موصوف کی کیا مراد ہے۔اگر سیکولر سے مراد دنیاوی مسائل سے متعلق ہونا ہے تو پھر خلافت راشدہ بھی سیکولر تھی‘ اسی لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ خلافت راشدہ کے زمانے کے بعد کے زمانے کو کیوں سیکولرسمجھتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ موروثیت میں خلافت راشدہ کی طرح آزاد بیعت نہیں ہوتی تھی؟ یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ خلافت راشدہ اور موروثیت میں بڑا واضح فرق ہے اور مسلمانوں کا مثالی نظام ہمیشہ سے خلافت راشدہ رہا ہے، لیکن یہ نتیجہ نکالنا جیسے موروثی بادشاہت کے ساتھ ہی اسلامی نظام کو دیس نکالا مل گیا تھا، قطعاً غلط بات ہے۔ ہاں البتہ یہ تاریخی امر ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمان مفکرین علماء میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ بدلتے حالات میںموروثی بادشاہت سے کس طرح نمٹا جائے۔ کچھ لوگوں نے بغاوتیں کیں، لیکن بالآخر یہ اجماع پیدا ہوگیا کہ اگر مسلمان حکمران اسلامی نظام عدل اور نفاذ شریعت کو برقرار رکھیں تو انکی اطاعت کی جاسکتی ہے۔ اس طرز فکر کو بعد میں الماوردی، ابن خلدون اور ابن تیمیہ نے باقاعدہ تحریر کیا اور حکمرانوں کیلئے لازم قرار دیا کہ وہ شریعت کے محافظ اور نگہبان بنیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کئی سلاطین گزرے ہیں جن کی شرافت، حمیت اور عظمت کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بالعموم وہ شریعت کے محافظ اور نگہبان تھے۔ انہی سلاطین کے دور میں اسلامی سلطنت کو وسعت اور استحکام ملا۔ انہوں نے ہی مسلمانوں کی عزت و آبرو کا بھرم رکھا اور اسلامی قوانین کے اطلاق کو جاری و ساری رکھا۔ خود ہمارے ہاں غوریوں، غزنویوں، لودھیوں اور مغلوں نے اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی قوانین کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے بھی جیسے بہاولپور، سوات اور دیر وغیرہ میں قیام پاکستان کے بعد بھی اسلامی نظام عدل رہا۔ ان بادشاہوں نے جنہیں سیکولر حضرات مطعون کرتے تھکتے نہیں، مسلمان معاشرہ کی اسلامی سمت برقرار رکھنے میں زبردست کردارادا کیا۔ طوالت سے بچنے کیلئے صرف ایک مثال دونگا۔ جب اُمویوں کے دور کے آخر میں زنادقہ تحریک نے پر پُرزے نکالے تو عباسی خلفاء المنصور اور المہدی نے تہیہ کرلیا کہ انہیں ختم کردیا جائے۔ زنادقہ جیسا کہ انکے بارے میں معلوم ہے الحاد کا پرچار کرتے تھے، وہ خدا اور مذہب میں یقین نہیں رکھتے تھے اور عوام کو شراب نوشی، زنا اور جواء کی طرف راغب کرتے تھے۔ چنانچہ نہ صرف انہیں قتل کیا گیا بلکہ فتنہ ارتداد کیخلاف کتابیں حکومتی سرپرستی میں لکھائی گئیں‘ اسی طرح جب خلیفہ المہدی دنیا سے رخصت ہونے لگا تو اس نے اپنے بیٹے الہادی کو جو وصیت کی وہ اسکے اسلامی جذبوں کی ترجمان ہے۔ ’’ اگر یہ حکومت کبھی تمہارے ہاتھ آئے تو مانی کے پیرو کاروں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑنا‘‘۔ اس لئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایک مسلمان معاشرے کو لادینیت کی طرف ہانکا جاسکتا ہے؟ مسلم دنیا میں جہاں بھی یہ تجربہ کیا گیا وہاں اس کے نتائج ہولناک نکلے۔ ایرانی تجربہ بالآخر خمینی انقلاب کی شکل میں ڈھل گیا اور اتاترک کا ترکی عثمانیوں کے نقشِ قدم پر چل پڑا ہے۔ انشاء اللہ پاکستان کے غیور عوام بھی مایوس نہیں کریںگے۔
حمید اختر صاحب پرانے لکھنے والے ہیں‘ ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے آدرش سے مخلص ہیں اور کبھی کبھار کھل بھی جاتے ہیں۔ جب سے سوویٹ یونین مرحوم ہوا ہے‘ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں اور یہ بات غلط بھی نہیں کیونکہ اشتمالیت (کمیونزم) میں سے اگر آپ پرولتاری آمریت اور اجتماعی ملکیت کے تصورات کو نکال دیں تو وہ اپنی اصل میں موجودہ سیکولرازم کے قریب تر ہے۔
موصوف نے اپنی حالیہ تحریر میں چند اساسی نوعیت کی باتیں کی ہیں‘ مثلاً انہیں دکھ ہے کہ لوگ سیکولرازم کو لادینیت کیوں کہتے ہیں‘ جبکہ سیکولرازم سے مراد مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھنا ہے۔ دوئم جو لوگ اس ملک میں اسلامی نظام کے احیاء کی بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تاریخ سے لاعلم ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جب خلفاء امیہ اور عباسیہ نے موروثی بادشاہت اختیار کی تو وہ سیکولر تھی میں انہی دو بنیادی نکات سے متعلق چند گزارشات پیش کروں گا۔ آیا سیکولرازم لادینیت ہے یا نہیں‘ تو اس کا انحصار اسکے جوہر سے ہے‘ اس کا فیصلہ نہ میں کر سکتا ہوں‘ نہ موصوف۔ اس کیلئے ہمیں معروضی ماخذوں کی طرف جانا پڑیگا جو سیکولر حضرات دانستہ نہیں جاناچاہتے۔ محض یہ کہہ دینا کہ سیکولرازم ریاست اور مذہب میں تفریق چاہتا ہے‘ مکمل سچائی نہیں بلکہ ہمیں دیکھنا پڑیگا کہ سیکولرازم واقعتاً چاہتا کیا ہے؟ یوں تو سیکولرازم کی تعریف متعین کرنے میں بہت سے نام لئے جا سکتے ہیں جیسے جارج ہولی اوک‘ پیٹر برجر‘ ہاروی کاکس‘ میکس ویبر‘ ور جلیئس فرم‘ ولیم لیکی اور برنارڈ لوئیس وغیرہ لیکن چونکہ ہولی اوک کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ہی پہلے اس اصطلاح کو متعارف کرایا تھا‘ اس لئے اسی سے شروع کرنا چاہیے۔ اسکے نزدیک:
’’سیکولرازم نام ہے‘ اس ضابطے کا‘ جس کا تعلق دنیا سے متعلق فرائض سے ہے‘ جس کی غایت خالصتاً انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر ان (افراد) کیلئے ہے جو الہٰیات کو نامکمل یا ناکافی ناقابل اعتبار یا ناقابل یقین (یعنی فضول اور بے معنی) سمجھتے ہیں۔‘‘
بقول ہولی اوک سیکولرازم میں خدا کا متبادل سائنس ہے‘ اسکے اپنے الفاظ میں: \\\"Science is the available providence of man.\\\" باالفاظ دیگر سیکولرازم اسی وقت بطور نظریہ سامنے آتی ہے جب انسان مذہب سے غیرمتعلق ہونا شروع کر دے۔ اسے مذہب میں اپنے مسائل کا حل نہ ملے‘ یا پھر وہ یہ سمجھے کہ مذہبی عقائد ناقابل یقین ہیں۔ کھل کر کہا جائے تو سیکولرازم ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جسے مذہب کا متبادل کہا جا سکتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکن مفکر رابرٹ گرین نے سیکولرازم کو انسانیت کا مذہب قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دنیا کو سمجھنے کیلئے انسان کو مذہب اور نیم مذہب نقطہ نگاہ سے نکالنے کا نام ہے‘ یعنی انسان کو ان تمام مذہبی علامتوں اور مافوق الفطرت افسانوں سے آزاد کرنا ہے تاکہ وہ آخرت کی طرف نہ دیکھے اور محض دنیا کے ہنگاموں میں مصروف عمل رہے۔
ہولی اوک کی سیکولرازم کی تعریف سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مذہب ’’اس دنیا‘‘ کیلئے ہے جبکہ سیکولرازم ’’اس دنیا‘‘ کیلئے ہے۔ سیکولر حضرات دین اور دنیا کی تقسیم کو سیکولرازم کی اساسی فکر بتاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام جیسا دینی نظریہ آخرت کو بڑی اہمیت دیتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی دنیا کو اسکی کھیتی قرار دیتا ہے۔ بغیر اس دنیا کے آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لئے مسلمانوں کے ہاں دین اور دنیا میں تفریق نہیں کہ یہ ایک ہی سلسلہ حیات ہے‘ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ ایسا کونسا الہامی مذہب ہے جو آئے تو دنیا کیلئے اور پھر خود ہی جنگلوں اور پہاڑوں میں منہ چھپا کر بیٹھ جائے؟ کیا اس طرح کوئی مذہب جو اجتماعی میلانات رکھتا ہو یا نظریہ‘ زندہ رہ سکتا ہے؟ طوالت سے بچنے کیلئے میں دیگر مفکرین کی تحریروں کا ذکر نہیں کرونگا‘ جنہوں نے سیکولرازم کے مفہوم متعین کئے ہیں لیکن بہرطور ان سب میں قدر مشترک یہی ہے کہ انسانوں کو اپنے معاملات کے حل کیلئے کسی خدا‘ مذہب‘ روایت‘ تاریخ اور الہامی اخلاقیات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان خود مکلف اور اس قابل ہے کہ وہ اپنی عقل ہی کو اپنی سوچ اور فکر کا محور بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولرازم اصرار کیساتھ یہ کہتی ہے کہ کوئی دوسری دنیا نہیں۔ یہ زندگی کا ضیاع ہے کہ اسے آخرت کے خوف سے مطلق کردیا جائے‘ اگر بات یہیں تک محدود ہوتی‘ یعنی محض فلسفیانہ حد تک تو کوئی بات نہ تھی اور نہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ ہر ایک کی اپنی سوچ اور ضمیر کی بات ہے کہ وہ کیا خیالات رکھنا چاہتا ہے لیکن جب ایسی سوچ ایک نظریہ آئیڈیالوجی کی شکل اختیار کرتی ہے اور سیاسیات‘ معاشیات‘ اخلاقیات اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کو تمام تر ریاستی مشینری کیساتھ اپنے دائرہ تصرف میں لانا چاہتی ہے تو سیکولرازم مسئلہ بن جاتی ہے۔
٭ اس ساری بحث کے بعد پوچھا جا سکتا ہے کہ سیکولرازم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ انسانی معاملات کو اپنی جکڑ میں لے؟ ٭ وہ کیوں خود تو ریاستی امور کو کنٹرول کرے اور مذہب کو سیاست سے باہر رکھے؟ جبکہ مذہب یہ دعویٰ رکھتا ہو کہ وہ انسانی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔ ٭ عقل کا وہ کونسا پیمانہ ہے جس سے سیکولرازم کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود تو کلیّت پسند بن جائے اور خدا اور اخلاقیات کو انسانی دائرہ کار سے بے دخل کرکے اپنے آپکو ’’سچائی واحد‘‘ قرار دے۔
تو جناب حمیداختر بات محض سیاست کو مذہب سے دور رکھنے کی نہیں‘ یہ بات کچھ اور ہے جسے آپ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپکے ہمرکاب ساتھی تو وہ سب کچھ اندرون متن یا زیر سطور کہہ رہے ہیں جن سے انکی اسلام دشمنی واضح ہوتی ہے۔ مثلاً مشرف کے نامشرف دور میں وزیراعظم شوکت عزیز نے خشک سالی سے نجات کیلئے عوام سے دعا اور نماز استسقاء کی اپیل کی تو جواب میں آپکے ممدوح پرویز ہود بھائی نے روزنامہ ڈان میں طنزاً لکھا کہ بارشیں نمازوں سے نہیں آتیں‘ یہ تو قانون فطرت کیمطابق بادل بنتے ہیں اور برستے ہیں۔ پرویز ہود یا بے ہود بھائی لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ ’’قانون فطرت‘‘ کس کے اماں باوا نے بنائے ہیں تو پاکستان کے ’’جذباتی‘‘ مذہبی عوام کے علم میں اضافہ ہو جاتا۔ آپ نے خود اپنے ایک گزشتہ کالم میں ’’داڑھی‘‘ والوں کے بارے میں طنزاً فرمایا کہ موجودہ حالات میں ان سب کو پکڑ لیناچاہیے۔ یہ تو پھر معمولی بات ہے، بینا سرور تو چاہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کی اہانت کی اجازت ہونی چاہئے۔ میں یہاں بوجہ خوفِ فساد اُسکا کہا ہوا نقل نہیں کرناچاہتا۔ اس سب کے باوجود ستم ظریفی دیکھیں کہ سیکولر حضرات زندگی کی ہر روش اور چلن سے مذہب کو کھرچ کھرچ کر نکالناچاہتے ہیں اور پھر پوپلا منہ بنا کر عوام کی طفل تسلی کیلئے کہتے پھرتے ہیں کہ نہیں ہم تو مذہب کیخلاف نہیں۔ دوسرا مستند ماخذ جو یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ سیکولر ازم لادینیت ہے یا نہیں خود قرآن حکیم ہے‘ مثلاً سیکولر حضرات نفاذ شریعت کیخلاف ہر وقت مورچہ زن رہتے ہیں اور ساتھ ہی ’’ فرماتے‘‘ جاتے ہیں ہم مذہب کیخلاف نہیں۔ قرآن ایسے تصورات اور رویوں کو کفر سے تعبیر کرتا ہے، میں اپنی بات کی تائید میں سورہ البقرۃ کی آیت85 کا حوالہ دونگا۔ ’’ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں تو انکی سزا سوائے اسکے کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہواور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں‘‘۔ سورۃ المائدہ42 میں یہی بات کہی گئی ہے۔’’ جو لوگ خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کیمطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
اب آپ ہی فرمائیں کہ سیکولر ازم کو لادینیت اور کفر نہ کہاجائے تو کیا کہاجائے۔ اصل میں سیکولر حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یورپین مذہبی تجربے کو پاکستان کے معاشرتی منظر نامہ پرتھوپنا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام عیسائیت نہیں اور نہ مسلم دنیا مغربی تہذیب کا حصہ ہے‘اسی لئے اس سارے عمل سے جو نتیجہ وہ نکالتے ہیں وہ غلط اور گمراہ کن ہوتا ہے۔ حمید اختر صاحب کا دوسرا مقدمہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں ہی کی موروثی بادشاہت کو سیکولر کہنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس سے موصوف کی کیا مراد ہے۔اگر سیکولر سے مراد دنیاوی مسائل سے متعلق ہونا ہے تو پھر خلافت راشدہ بھی سیکولر تھی‘ اسی لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ خلافت راشدہ کے زمانے کے بعد کے زمانے کو کیوں سیکولرسمجھتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ موروثیت میں خلافت راشدہ کی طرح آزاد بیعت نہیں ہوتی تھی؟ یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ خلافت راشدہ اور موروثیت میں بڑا واضح فرق ہے اور مسلمانوں کا مثالی نظام ہمیشہ سے خلافت راشدہ رہا ہے، لیکن یہ نتیجہ نکالنا جیسے موروثی بادشاہت کے ساتھ ہی اسلامی نظام کو دیس نکالا مل گیا تھا، قطعاً غلط بات ہے۔ ہاں البتہ یہ تاریخی امر ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمان مفکرین علماء میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ بدلتے حالات میںموروثی بادشاہت سے کس طرح نمٹا جائے۔ کچھ لوگوں نے بغاوتیں کیں، لیکن بالآخر یہ اجماع پیدا ہوگیا کہ اگر مسلمان حکمران اسلامی نظام عدل اور نفاذ شریعت کو برقرار رکھیں تو انکی اطاعت کی جاسکتی ہے۔ اس طرز فکر کو بعد میں الماوردی، ابن خلدون اور ابن تیمیہ نے باقاعدہ تحریر کیا اور حکمرانوں کیلئے لازم قرار دیا کہ وہ شریعت کے محافظ اور نگہبان بنیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کئی سلاطین گزرے ہیں جن کی شرافت، حمیت اور عظمت کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بالعموم وہ شریعت کے محافظ اور نگہبان تھے۔ انہی سلاطین کے دور میں اسلامی سلطنت کو وسعت اور استحکام ملا۔ انہوں نے ہی مسلمانوں کی عزت و آبرو کا بھرم رکھا اور اسلامی قوانین کے اطلاق کو جاری و ساری رکھا۔ خود ہمارے ہاں غوریوں، غزنویوں، لودھیوں اور مغلوں نے اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی قوانین کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے بھی جیسے بہاولپور، سوات اور دیر وغیرہ میں قیام پاکستان کے بعد بھی اسلامی نظام عدل رہا۔ ان بادشاہوں نے جنہیں سیکولر حضرات مطعون کرتے تھکتے نہیں، مسلمان معاشرہ کی اسلامی سمت برقرار رکھنے میں زبردست کردارادا کیا۔ طوالت سے بچنے کیلئے صرف ایک مثال دونگا۔ جب اُمویوں کے دور کے آخر میں زنادقہ تحریک نے پر پُرزے نکالے تو عباسی خلفاء المنصور اور المہدی نے تہیہ کرلیا کہ انہیں ختم کردیا جائے۔ زنادقہ جیسا کہ انکے بارے میں معلوم ہے الحاد کا پرچار کرتے تھے، وہ خدا اور مذہب میں یقین نہیں رکھتے تھے اور عوام کو شراب نوشی، زنا اور جواء کی طرف راغب کرتے تھے۔ چنانچہ نہ صرف انہیں قتل کیا گیا بلکہ فتنہ ارتداد کیخلاف کتابیں حکومتی سرپرستی میں لکھائی گئیں‘ اسی طرح جب خلیفہ المہدی دنیا سے رخصت ہونے لگا تو اس نے اپنے بیٹے الہادی کو جو وصیت کی وہ اسکے اسلامی جذبوں کی ترجمان ہے۔ ’’ اگر یہ حکومت کبھی تمہارے ہاتھ آئے تو مانی کے پیرو کاروں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑنا‘‘۔ اس لئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایک مسلمان معاشرے کو لادینیت کی طرف ہانکا جاسکتا ہے؟ مسلم دنیا میں جہاں بھی یہ تجربہ کیا گیا وہاں اس کے نتائج ہولناک نکلے۔ ایرانی تجربہ بالآخر خمینی انقلاب کی شکل میں ڈھل گیا اور اتاترک کا ترکی عثمانیوں کے نقشِ قدم پر چل پڑا ہے۔ انشاء اللہ پاکستان کے غیور عوام بھی مایوس نہیں کریںگے۔