کیا ہے فیصلہ عدلیہ کا چیئرمین نیب کی تقرری کے بارے میں؟ یہی کہ ’’سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے‘‘ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری نے فرمایا کہ ’’چیئرمین نیب کے تقرر کے سلسلے میں تمام قانونی تقاضے اور مشاورتی عمل مکمل کرنے کے بعد میں نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے دیدار علی شاہ کو چیئرمین مقرر کیا ہے‘‘ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم جو سید بھی ہیں اور سید عبدالقادر جیلانیؒ کی آل سے ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں فرماتے تھے کہ ’’چیئرمین نیب کا تقرر آئینی نہیں انتظامی معاملہ ہے‘‘ دونوں ہی آئین قانون اور انتظامی معاملات کی نوعیت اور اصلیت سے واقف ہونے کے بھی دعویدار ہیں اور ان میں سے ایک فرماتے تھے کہ میں نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت دیدار علی شاہ کو چیئرمین مقرر کیا ہے اور سب آئینی تقاضے پورے کئے ہیں اور دوسرے فرماتے تھے کہ یہ تو آئینی معاملہ ہے ہی نہیں انتظامی معاملہ ہے ہم نے یہ دونوں فرمودات ایک ہی روز اخبار کے ایک صفحہ پر ساتھ ساتھ چھپے پڑھے تھے آئین اور قانون اگر کوئی ہے تو اس کے تحت انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو تو سید اور گیلانی یوسف رضا خود ہیں۔ اگر یہ انتظامی معاملہ ہے تو اس کے تحت آصف علی زرداری کو تو کوئی اختیار ہے ہی نہیں چیئرمین نیب کے تقرر پر گیلانی پیر نے اتنی بڑی آئینی انتظامی خلاف ورزی کیسے ہضم کر لی؟ اور اگر وہ صحیح فرماتے ہیں کہ یہ انتظامی معاملہ ہے تو پھر ان کے مالک و مختار بلوچوں کے سردار آصف علی زرداری کیوں فرماتے تھے کہ اس تقرر کا آئینی اختیار مجھے حاصل ہے اور میں نے اپنے آئینی اختیار کے تحت سید دیدار علی شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کیا ہے۔ ان دونوں میں حق اور سچ کس کے ساتھ ہے؟ بتائیں گے ڈاکٹر بابر اعوان؟ جہاں تک ہم عوام کا تعلق ہے ہم تو نہیں کہہ سکتے کہ کون سچا ہے دونوں میں سے کہ اپنے منصب کے حوالے سے تو دونوں میں سے کوئی بھی سچ اور صرف سچ کے علاوہ کچھ اور بول ہی نہیں سکتا۔ مگر دونوں کا سچ ایک دوسرے کے سچ کی تردید کیوں کر رہا تھا ایک ہی روز کے اخبار کے ایک صفحہ پر؟ سوچیں تو سید اور گیلانی یوسف رضا فرماتے رہتے ہیں کہ وہ یعنی پیر گیلانی اور ان کے ساتھی بھٹو گدی کے مرید ملک کے باشعور عوام کا انتخاب بھی اس حوالے سے بھٹو گدی کے نشین آصف علی زرداری ملک کے باشعور عوام کے انتخاب لاجواب کا انتخاب ہیں گویا وہ دونوں ملک کے باشعور عوام کے شعور کی بھی روشن مثالیں ہیں اور ان کے سچ اور شعور باہم دست گریبان ہیں ایک ہی گدی ایک ہی پارٹی ایک ہی حکمرانی اور گلہ بانی اور سچ اور شعور میں تصادم؟ اور وہ جو اس شعور کا انتخاب ہیں سید دیدار علی شاہ ان کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب ہی مسٹر جسٹس صاحبان کو بتایا گیا ہے کہ سوئس بنکوں میں جمع رقم کس کی تھی ہے بھی یا نہیں وہ کچھ نہیں جانتے وہ رقم کہاں گئی ان کے ادارے نیب کو بھی کچھ علم نہیں۔ اس سے ان کے شعور کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور سچ کا بھی گویا ’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘ وہ جو سید بھی ہیں بھٹو گدی کے مریدین میں سے بھی ہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں انصاف کرنے کرانے کے دھندے سے بھی وابستہ رہے ہیں ان کے تقرر پر اعتراض کرنے والوں کو تو اس رپورٹ کے سچ سے ان کے تقرر کی آئینی اور قانونی وجوہ بھی معلوم ہو گئی ہوں گی کہ ’’کند سچ با سچ پرواز‘‘ یعنی سچ کے ساتھ سچ ہی بلند فضائوں میں پرواز کیا کرتا ہے۔ اس رپورٹ سے جو انہوں نے عدالت عالیہ میں جمع کرائی ہے یہ بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ملک کے باشعور عوام کا چنا ہوا سچ ملک اور اس کے عوام کو لے جا کدھر رہا ہے۔
اتنی بھاری رقوم جن کے بارے میں ساری دنیا کو علم ہو کہ وہ کن بنکوں میں ہے ان کے دعویدار کون ہیں جن کی ملکیت کے سالوں مقدمات چلتے رہے تھے وہ مقدمات جو بے نظیر مشرف این آر او کی ڈیل کے لین دین میں کھوہ کھاتے ڈالنے پر اتفاق ہو گیا تھا ان کے بارے میں نیب کو اور اس کے سید چیئرمین کو علم ہی نہ ہو کہ وہ ہیں بھی یا نہیں اور گئی تو کہاں گئی؟ مان لے گا اس سچ کو کوئی بے شعور عوام؟
یوں تو سید بھی ہو گیلانی بھی ہو زردار بھی ہو
لیکن اتنا تو دکھا دو کہ اس منصب کے حقدار بھی ہو
اتنی بے خبری؟ یہ تو کسی دھتورا شاہ کی شاہی کی شان کے بھی شایاں نہیں۔ دھتورا شاہی کو ان ’’سچ‘‘ مقابلوں کے تاریخ جغرافیہ کے اندھیر سویر سے کیا خود انہیں یقین آ گیا ہے کہ
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی دھتورا کے پھولوں سے
عدالت عالیہ نے تو سید دیدار شاہ کی تقرری کو اس عدالت کے اپنے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیدیا ہے جس کے مسٹر جسٹس سید شاہ خود رہے ہیں کیا خود انہیں اس فیصلے کا علم نہیں تھا؟ اور وہ جو این آر او شاہی کے ماہرین انصافیات کی فوج ہے؟ وہ فوج جس کی تنخواہوں اور مراعات کا بھاری بوجھ ہم عوام اٹھا رہے ہیں اسی اصول کے تحت کہ ’’اپنیاں جتیاں تے اپنا سر‘‘ کیا ان سب کو بھی اقتدار کا دھتورا چڑھا ہوا تھا۔
اتنی بھاری رقوم جن کے بارے میں ساری دنیا کو علم ہو کہ وہ کن بنکوں میں ہے ان کے دعویدار کون ہیں جن کی ملکیت کے سالوں مقدمات چلتے رہے تھے وہ مقدمات جو بے نظیر مشرف این آر او کی ڈیل کے لین دین میں کھوہ کھاتے ڈالنے پر اتفاق ہو گیا تھا ان کے بارے میں نیب کو اور اس کے سید چیئرمین کو علم ہی نہ ہو کہ وہ ہیں بھی یا نہیں اور گئی تو کہاں گئی؟ مان لے گا اس سچ کو کوئی بے شعور عوام؟
یوں تو سید بھی ہو گیلانی بھی ہو زردار بھی ہو
لیکن اتنا تو دکھا دو کہ اس منصب کے حقدار بھی ہو
اتنی بے خبری؟ یہ تو کسی دھتورا شاہ کی شاہی کی شان کے بھی شایاں نہیں۔ دھتورا شاہی کو ان ’’سچ‘‘ مقابلوں کے تاریخ جغرافیہ کے اندھیر سویر سے کیا خود انہیں یقین آ گیا ہے کہ
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی دھتورا کے پھولوں سے
عدالت عالیہ نے تو سید دیدار شاہ کی تقرری کو اس عدالت کے اپنے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیدیا ہے جس کے مسٹر جسٹس سید شاہ خود رہے ہیں کیا خود انہیں اس فیصلے کا علم نہیں تھا؟ اور وہ جو این آر او شاہی کے ماہرین انصافیات کی فوج ہے؟ وہ فوج جس کی تنخواہوں اور مراعات کا بھاری بوجھ ہم عوام اٹھا رہے ہیں اسی اصول کے تحت کہ ’’اپنیاں جتیاں تے اپنا سر‘‘ کیا ان سب کو بھی اقتدار کا دھتورا چڑھا ہوا تھا۔