پیر ‘ 27 ذیقعد 1433ھ 15 اکتوبر2012 ئ

میانوالی میں لیڈی پولیس اہلکار اپریشن کے بعد عبداللہ بن گئی۔
یہ اللہ کے کرشمے ہیں‘ وہ اس کائنات کو جیسے چاہے چلائے‘ کیونکہ وہ قادر المطلق ہے۔ لیڈی اہلکار پروین کا اپریشن کے بعد عبداللہ بن جانا محکمہ پولیس کو مبارک ہو کہ انکے محکمہ میں کسی مرد کا نزول ہوا ہے۔ اب پروین بھی ایک ٹکٹ میں دو مزے لے گی‘ پہلے وہ عورت بن کر اس کائنات کی تصویر میں رنگ بھرتی رہی‘ خیر سے اب وہ مرد بن گیا ہے‘ اب وہ زندگی کے جھمیلوں سے کھیلے گا۔ پروین کانام عبداللہ رکھنا بھی معنی خیز ہے‘ عبداللہ کا مطلب ‘ اللہ کا بندہ۔ یعنی بگڑے ہوئے محکمہ ¿ پولیس کو عبداللہ کی صورت میںبندے کا پتر مل گیا ہے‘ امید ہے عبداللہ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے پولیس کے باقی اہلکاروں کو بھی بندہ بنانے کی کوشش کریگا۔
محکمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ہمارے محکمہ کا پہلا کیس ہے‘ اس پر ہم اپنے قانونی ماہرین سے رائے لیں گے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ماہرین سے رائے لینے میں جلدی نہ کریں‘ پہلے عبداللہ پر تجربہ کرلیں‘ اگر وہ محکمہ اور عوام کیلئے مفید ثابت ہوا تو باقی بھی اپنے بارے میں سوچیں۔
٭....٭....٭....٭
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے عمران خان کو خط میں لکھا ہے کہ ڈرون حملوں کے بارے میں آپکی سوچ کو اچھی طرح جانتا ہوں‘ خطے میں جنگ اور انتہا پسندی کے بارے میں آپکی تشویش میں برابر کا شریک ہوں۔
حامد کرزئی نے درست فرمایا ہے کہ وہ خطے میں ڈرون حملوں‘ جنگ اور انتہا پسندی میں برابر کے شریک ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف افغانستان بلکہ دوسرے ممالک بھی جنگ میں انکی شراکت بھگت رہے ہیں۔حامد کرزئی عمران کی تشویش میں شریک ہونے کے بجائے اگر اپنی شراکت کی نوعیت بدل لیں تو یقیناً خطے میں امن و امان کی بھی نوعیت بدل جائیگی اورپھر وہ نہ صرف افغان قوم بلکہ کسی کے بھی ”قرضئی“ نہیں رہیں گے۔
٭....٭....٭....٭
طبی ماہرین کے مطابق پیدل چلنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ پیدل چلنے والے ہر لحاظ سے صحت مند رہتے ہیں‘ نہ انہیں دل کی تکلیف کا اندیشہ ہوتا ہے اور نہ ہی بلند فشار ِخون کا خطرہ‘ بلکہ جسمانی اعتبار سے وہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔
ماہرین نے یقیناً یہ ریسرچ پاکستان کی غریب قوم کی حالت زار دیکھ کر ہی کی ہو گی تاکہ اسے تسلی دی جا سکے۔ قوم سے ہر طرح کی سفری سہولتیں چھینی جا رہی ہیں‘ اگر تھوڑی بہت کہیں میسر ہیں بھی تو وہ اسکی دسترس سے باہر ہیں۔ ہر ہفتہ پٹرول کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے‘ جس کا فائدہ اٹھا کر ٹرانسپورٹر اپنی مرضی سے کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
اس خواب خرگوش میں سوئی ہوئی قوم کے ساتھ جو ہو رہا ہے‘ وہ وقت دور نہیں جب وہ پیدل چلنے کے بھی قابل نہیں رہے گی اور گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہو گی۔ دیکھتے ہیں پھر ماہرین گھٹنوں کے بل چلنے والی قوم پر کیا ریسرچ کرتے ہیں۔ لیکن ہم انکی ریسرچ سے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ انسان لڑکپن سے جوانی‘ جوانی سے بڑھاپے اور بڑھاپے سے دوبارہ بچپن کی طرف لوٹتا ہے‘ لہٰذا حکمرانوں کی مہربانی سے قوم نہ صرف اپنے بچپن کی طرف لوٹ رہی ہے بلکہ پتھر کے زمانے کی طرف گامزن ہے‘ کیونکہ ” کسی “نے ڈرایا تھا کہ ”اگر ہمارا ساتھ نہ دیا تو تمہیں پچھلے دور میں دھکیل دیا جائیگا۔ “بس یہی ایک خوف لے ڈوبا ہمارے ہرجائیوں کو۔
٭....٭....٭....٭
لاہور میں ڈینگی کا ایک اور کیس رپورٹ‘ مریضوں کی تعداد 233 ہو گئی۔
پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ڈینگی کا ڈنگ خوب چل رہاہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلے سال میڈیا نے ڈینگی کو اوج ثریا تک پہنچا کر ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا اور اسکے بارے میں لمحہ لمحہ کی خبریں شائع و نشر کی جا رہی تھیں‘آج اس معاملے میں میڈیا کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں گستاخانہ فلم کے حوالے سے میڈیا نے خوب شور مچایا‘ یوں محسوس ہوتا تھا کہ مجرم کو کیفرکردار تک پہنچا کر ہی دم لے گا‘ پھر اچانک اسکے حواس پر ملالہ چھا گئی اور گستاخانہ فلم کا باب بند ہو کر رہ گیا۔ یہ میڈیا ہی کا کمال ہے کہ وہ جس کو چاہے آسمان پر پہنچا دے‘ جسے چاہے‘ زمین میں دفن کردے۔ بہرحال اس مرتبہ ڈینگی کے معاملے میں میڈیا کی خاموشی کسی مصلحت کا شکار نظر آتی ہے۔
ڈینگی کی ابھی ابتداءہے‘ اگلے تین ماہ اسکے عروج کے ہو سکتے ہیں۔ ماہر ڈینگیات خادم اعلیٰ اور انکی ٹیم ڈینگی کےخلاف حالتِ جنگ میں ہے‘ اسکے باوجود ڈینگی نے 233 لاہوریوں کو اپنا نشانہ بنا ڈالا ‘ یہ انکے اور انکی ٹیم کےلئے لمحہ فکریہ ہے ۔
٭....٭....٭....٭
لاہور پولیس کی پھرتیاں‘ مردے کیخلاف مقدمہ درج‘ لواحقین کو ضمانت کرانے کی دھمکیاں۔
پولیس لاہور کی ہو یا کہیں اور کی‘ پولیس پولیس ہوتی ہے‘ اسی طرح وردی وردی ہوتی ہے‘ وردی کا نشہ ہیروئن سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے‘ یقین نہ آئے تو پہن کر دیکھ لیں۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ پچھلے ساٹھ سال سے اعلیٰ سطح پر اسے جرنیلی وردیوں نے مارا اور رہی سہی کسر نچلی سطح کی وردی والوں نے نکال دی۔ یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ ہماری پولیس کی کارروائی اصل کے بجائے بے گناہ کیخلاف کیوں ہوتی ہے۔
بہرحال لاہور پولیس اتنی پھرتیاں بھی نہ دکھائے کہ گڑھے مردے اکھاڑنا شروع کر دے۔ جو قبر میں ابدی نیند سو رہا ہے‘ کم از کم اسے تو سکون سے سونے دے اور لواحقین کا مردہ خراب نہ کرے۔

ای پیپر دی نیشن