ہمارے معاشرے میں دہشت گردی اور شدت پسندی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جہالت جب ختم ہو گی تو اس کے ساتھ ہی دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گا۔ معاشرے میں ٹھہراﺅ پیدا ہو گا۔ بات چیت دلیل سے ہوا کرے گی۔ صبر و تحمل سے ایک دوسرے کے نظریاتی اور خیالات کو سنا جائے گا۔ یہی ایک واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ ساری دنیا میں اسی طرح کا عمل دیکھنے کو ملا ہے۔ خدا صرف اور صرف ان کی مدد کرتا ہے جو محنت سے اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
کبھی سری لنکا میں بھی پاکستان جیسے حالات تھے۔ خانہ جنگی زوروں پر تھی۔ وہاں کے حکمران نے تعلیم و تربیت کی طرف خاطر خواہ توجہ دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی سری لنکا میں تقریباً 100فیصد لوگ پڑھے لکھے ہو گئے ہیں۔ خانہ جنگی وہاں قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے۔ برصغیر کے نیپال اور بھوٹان چھوٹے ملک ہیں مگر وہاں بھی تعلیم عام ہو گئی ہے۔ وہاں کی شرح خواندگی میں ہم سے وہ لوگ آگے جا چکے ہیں ۔چین اور تائیوان کوریا وغیرہ کی مثالیں ہمارے لئے قابل تقلید ہیں۔ ملائشیا تقریباً ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا۔ مہاتیر محمد کی رہنمائی میں ملائشیا دنیا کے لئے ایک مثال کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ترقی کا حیرت انگیز معجزہ ملائشیا میں صرف اور صرف تعلیم کی بدولت ممکن ہو سکا ہے۔ اسی طرح جاپان اور کوریا تو دنیا کی سرفہرست ملکوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ شرح خواندگی کو بڑھانا اور جہالت کو ختم کرنا صرف باتوں سے ممکن نہ ہو سکے گا۔ اس کام کے لئے ہمیں مہاتیر محمد بن کر سامنے آنا ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں ایک بات مشہور ہے کہ پاکستان میں بڑے لوگ تعلیم کے خلاف ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عام پاکستانیوں میں بھی شعور پیدا ہو۔ عام دیہات میں تو غربا سے غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ بڑے لوگوں کو اپنے مزارعین کو سوٹیوں سے مارتے ہوئے دیکھا ہے۔ مزارعین اپنے مالکوں کے سامنے چارپائی پر ہر گز نہ بیٹھ سکتے ہیں۔ ان کے بیٹھنے کا تحقیر آمیز انتظام آج بھی موجود ہے۔ بڑے لوگ صوفوں یا کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں جبکہ عام غریب غربا پیڑیوں یا زمین پر بیٹھتے ہیں۔ پیڑیاں کرسیوں کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹی قسم کی کرسیاں ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے دیہات میں تو شاید ہی بدقسمتی سے آزادی کے بعد کوئی تبدیلی آئی ہے۔ پرانے زمانے کے اوقات کی طرح آج بھی چھوٹے طبقات سے غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ بڑے لوگوں کے ہاں کھانا تقریباً 100فیصد دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کھانا وہ ہو گا جس کو بڑے لوگ کھائیں گے دوسری قسم کا کھانا ان کے ملازمین کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یقین کریں کہ میں اس قسم کا کھانا بھی کھا چکا ہوں۔ میرے لئے اس وقت اس طرح کا کھانا بڑی غنیمت ہوتا تھا۔ آج مجھے اس طرح کے سلوک سے سخت نفرت پیدا ہو گئی ہے۔ ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس طرح کا چھوٹے لوگوں سے سلوک غیراسلامی اور غیرشرعی ہو گا۔ مسلمان تو سب برابر ہوتے ہیں۔ دسترخوان پر بھی وہ سب برابر ہوں گے۔
خدا کی عبادت کرتے ہوئے سب امیر غریب امرا اور عوام ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مسجد ہر قسم کے لوگوں کی عبادت گاہ ہے۔ مسجد میں جوبھی مسلمان پہلے پہنچے گا وہ یقینی طور پر پہلی صف میں کھڑا ہو گا۔ آج تک میں نے کسی بھی غریب نمازی کو پہلی صف سے اپنی جگہ خالی کر کے کسی اور بڑے آدمی کو جگہ دیتے نہ دیکھا ہے اور نہ ہی اس طر ح کا کوئی واقعہ سنا ہے۔ یہ بالکل علیحدہ بات ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کسی بزرگ اور پرہیز گار شخصیت کو پہلی صف میں آ کر نماز ادا کرنے کا کہیں۔
تعلیم عام کرنے کے لئے تعلیم منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک لانے کے لئے پاکستان کی تمام مساجد کو درسگاہوں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میںعلمائے کرام کی رائے اور اجازت ضروری خیال ہو گی۔ ان مساجد میں دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم سے قوم کو آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو یہ طریقہ انتہائی مفید اور کارگر نظر آتا ہے۔ اب بھی پاکستان میں لاکھوں مدارس چلائے جا رہے ہیں۔ صرف وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو پڑھانے کی ضرورت ہو گی۔ ان مدارس کو چلانے والوں کے ساتھ باہمی صلاح مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ تمام مساجد میں پڑھے لکھے لوگ بھی درس و تدریس کا کام کر سکتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو 17گریڈ میں بھرتی کیا جائے اور ان کو ہر قسم کی سہولتیں دیے جانے کا اعلان بھی کرنا پڑے گا۔ فرقہ بندیوں نے ہمیں بے حساب نقصانات پہنچائے ہیں۔ علمائے کرام کے تعاون سے ہمیں ان پر قابو پانا ہو گا۔ جب مساجد میں دین کے ساتھ ساتھ جدید علوم کا بھی داخلہ ممکن ہو گا تو خود بخود ہمارے معاشرے سے شدت پسندی کا بھی خاتمہ ہو گا۔ زبانی کلامی تو بہت کام ہو چکے ہیں۔ آئیے اب ہم عملی کاموں کا آغاز کرتے ہیں۔ اسی سے ہماری قوم اور ملک کی قسمت بدل پائے گی۔ آپ امریکہ جاپان اور یورپ کے ممالک کی طرف نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ یہ ملک کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں ہیں؟ ابھی تو ہم نے ایک زندہ او طاقت ور قوم کا ثبوت دینا ہے۔ وہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سے ہی ممکن ہو گا۔