حقوق نسواں اور تعلیم کے فروغ کیلئے اپنی بساط سے کہیں بڑھ جدودجہد کرنیوالی سولہ سالہ ملالہ اب کسی تعارف کی محتاج نہیں رہی۔اس معصوم بچی نے چھوٹی سی عمر میں بہت بڑا نام پالیا۔وہ گھر بیٹھے بٹھائے نامور اور عالمی سطح کی شخصیت بن گئی۔آج اس پر قومی و عالمی سطح کے انعامات، اعزازات اور ایوارڈز کی برسات ہورہی ہے۔یہ سب کچھ اسے اپنی زندگی داﺅ پر لگانے کے بعد ہی ملاہے ۔ وہ اس معاشرے کا حصہ ہے جہاں ایک دھمکی آمیز فون پر جج اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے۔ مجسٹریٹ ملزم سے اقبالی جرم سنتااور جرم سے انکار لکھتا ہے۔ کئی جج اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق دہشتگردوں کو سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہیں۔حکومت ان پر عمل کا حکم دیتی ہے مگر ایک دھمکی آمیز بیان پر وزیر اعظم اور انکے ساتھی خوفزدہ ہوکر سزائے موت کو ہی معطل کر دیتے ہیں۔ایسے حالات میں ایک لڑکی کا دہشت گردوں کے ایجنڈے کو قبول نہ کرناغیر معمولی جرات اور بہادری نہیں تو کیا ہے؟ وہ دہشتگردوں کی تعلیم پر پابندیوں کے باوجود علم کا سفر جاری رکھتی ہے ۔اس معصوم کو اس کی ساتھیوں سمیت فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ لڑکیاں شدید زخمی ہوئیں البتہ جانیں بچ گئیں۔ملالہ کئی روز ہسپتال میں رہی صحت یاب ہوئی تو دہشتگردوں کو شائد امید تھی کہ اب وہ خوفزدہ ہوکر اپنا مشن چھوڑ دیگی لیکن وہ تعلیم، خصوصی طور پر خواتین کی تعلیم کے لئے پہلے سے بھی زیادہ پرعزم نظر آئی۔اسی عزم کے باعث اسے نہ صرف اپنے ملک بلکہ پوری دنیا میں پزیرائی اور شہرت ملی۔وہ اب پاکستان کی ایک بہترین سفیر کا روپ دھار چکی ہے ۔ ملالہ یوسف زئی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بن گئی۔وہ دنیا میں جہاں جاتی ہے پاکستان ، امن اور تعلیم کی بات کرتی ہے۔
پاکستان میں اسے تمغہ شجاعت کے ایوارڈ سے نواز گیا۔ ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حصول کیلئے جو کوششیں کیں انکے پیش نظر ملالہ کو نوبل پرائز کا مضبوط حق دار قرار دیا جارہا تھا۔اس کا159نامزدگان میں نام سر فہرست تھا۔ ملالہ نے نوبل امن پرائز کے اعلان سے صرف ایک دن پہلے یورپی یونین کا انسانی حقوق کا سخاروف ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ 2013 میں بچوں کا بین الاقوامی امن کا انعام ملا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملالہ کو ضمیر کا سفیر بنایا جبکہ ملالہ نے گلوبل سٹیزن ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی انسانیت کے نام ایک اور اعزاز ہیومنٹیرین ایوارڈ پاکستان کی اس بیٹی کو دیا۔قوم کو امید تھی کہ ملالہ نوبل پرائز جیت جائے گی۔ اس کیلئے قوم دعا گو بھی رہی لیکن یہ ایوارڈ کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے کو دے دیا گیا۔اس کے ملالہ اورقوم کو مایوسی نہیں ہوئی۔
اس نے مستقبل میں سیاست میں آنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی سطح پر اسکی سرگرمیاں اسکی بہترین سیاسی گرومنگ کا سبب بنیں گی۔اسکی برطانوی ملکہ سے ملاقات ہو چکی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹی جنرل بانکی مون سے وہ مل چکی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت بے شمار عالمی شخصیات سے ملالہ کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ۔ اوباما سے ملاقات کیلئے کئی سربراہانِ مملکت کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ملالہ جس دن امریکہ پہنچی اوبامہ نے اسے ملاقات کیلئے بلا لیا۔ ملالہ کی کوشش کو اوباما نے بھرپور طریقے سے سراہا ۔ باراک اوباما نے اس موقع پر ملالہ کی کوششوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک دن دنیا بھر کی بیٹیاں اپنے ملکوں کی قیادت کرتے ہوئے نظر آئیں گی ہر براعظم میں ایسی بیٹیاں موجود ہیں جن کو اگر ہم آزادی دیں کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے جستجو کر سکیں تو وہ دنیا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کا ہم شاہد تصور بھی نہ کر سکیں۔ اس ملاقات میں امریکی صدر کی اہلیہ اور بیٹی بھی موجود تھی ۔امریکی صدر نے بچیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ملالہ کی سچی لگن اور قابل تقلید جذبے کے ساتھ کی جانیوالی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ملالہ یوسفزئی اس درجہ پزیرائی پر تکبر میں مبتلا نہیں ہوئی اسکی انکساری ان الفاظ سے نمایاں ہے جو اسے نوبل پرائز نہ ملنے پر ادا کئے ”مجھے نوبل پرائز نہ ملنے پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ میں خود کو فی الحال نوبل انعام کا حقدار نہیں سمجھتی‘ ابھی میں نے بہت کچھ کرنا ہے۔ جو ملالہ کو دشمن سمجھتے ہیں ملالہ ان کی بھی اصلاح چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ اس کے بس میں ہو تو طالبان کے بچوں کو بھی تعلیم دلوائے۔ ملالہ کا پیغام بڑا واضح ہے ۔ وہ قلم کتاب اور استاد کی بات کرتی ہے جو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ننھی پری کی تعلیم کیلئے جدوجہد کو سلام ۔ملالہ تجھے سلام۔