ممتاز صحافی سعید آسی کے نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالموں کا انتخاب ”کب راج کرے گی خلق خدا“ کے نام سے کتابی صورت میں منظرعام پر آیا ہے۔ اس کا انتساب آبروئے صحافت مجید نظامی کے نام ہے؟ سعید آسی نے لکھا ہے کہ نظامی صاحب نے مجھے قلم تھامتے سچ کہنے اور سچ پر قائم رہنے کا شعور چلن اور سلیقہ عطا کیا سعید آسی 32 برس سے نوائے وقت کے ساتھ منسلک ہے۔ نوائے وقت کی نسبت سے انہیں ایک ایماندار بے باک نڈر اور سچے صحافی کے طور پر ہر حلقے میں عزت سے دیکھا جاتا ہے۔ نوائے وقت کی نسبت ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ اسی لئے کتابوں کی نسبت نسب سے افضل اور عقیدت عقیدے کے لئے ضروری ہے۔
”کب راج کرے گی خلق خدا“ یہ خواہش ہے اور انتظار خواہش بھی زندہ ہے اور انتظار بھی باقی ہے مگر وہ زمانہ کبھی نہ آیا۔ راج انہوں نے کیا جو راج کرنے کے قابل نہ تھے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج اب تو اندھیرے اور اندھیر میں فرق مٹ گیا ہے۔ جہاں راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنا دیا جائے تو وہاں کیا راج ہو گا۔ پھر تو خلق خدا بھی راج کرنے کی خواہش سے شرمندہ ہو جائے گی۔ لوگ تو یہ سوچنے لگے ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا۔ بلکہ اب سوچتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔
ایک دفعہ پاک ٹی ہا¶س میں ہم تھے اور بحث ہو رہی تھی۔ ہم تب نوجوان تھے حبیب جالب‘ منیر نیازی‘ ناصر کاظمی اور کئی دوسرے ادیب شاعر صحافی بڑے زور شور سے لگے ہوئے تھے۔ پاکستان کی فکر لگی ہوئی تھی۔ فیض احمد فیض خاموش بیٹھے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ بھی بولیں۔ انہوں نے کہا پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا۔ بس ایسے ہی چلتا رہے گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات فیض احمد فیض نے کس نیت سے کہی تھی مگر ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ سعید آسی بھی تین دہائیوں سے لکھ رہا ہے۔ اس کی تحریروں میں تڑپ اور طلب یکجا ہو گئی ہیں۔ التجا اور احتجاج میں فرق نہیں رہا ہے۔ راجے مہاراجے وہی ہیں۔ خلق خدا آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ کب راج کرے گی خلق خدا
کتاب کے آغاز میں پیش لفظ کے طور پر معاذ ہاشمی نے سعید آسی کے کالموں میں لرزتی ہوئی بے قراری کو سرشاری میں ڈھالتے ہوئے فیض کا مصرعہ لکھا ہے۔ ”اب راج کرے گی خلق خدا“ مگر اب اور کب میں فاصلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور فیصلہ نہیں ہوتا۔ اچھے شاعر سعید آسی کی خدمت میں اپنا شعر پیش کرتا ہوں۔ اس نے اپنے آپ کو شاعر کے طور پر معروف نہ ہونے دینے لئے بڑی کوشش کر رکھی ہے اس کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
اس کے میرے درمیاں ہیں فیصلوں کے فاصلے
میں یہاں موجود ہوں اور وہ وہاں موجود ہے
اسے لوگ درویش صحافی کہتے ہیں۔ وہ درویش تو ہے۔ اس کی زندگی گھر سے دفتر تک ہے۔ وہ نوائے وقت کے دفتر کو بھی اپنا گھر سمجھتا ہے۔ درویش کا لفظ غلط العام ہو گیا ہے۔ ایسے ایسے لوگوں کو درویش کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کے لئے علامہ اقبال کا یہ شعر زیادہ بامعنی ہے۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
آجکل دانشور اور عظیم کے لفظ کا بھی استحصال کیا جا رہا ہے۔ کثرت سے استعمال استحصال بن جاتا ہے۔ شہید زندہ ہوتے ہیں مگر وہ لوگ جو زندگی میں بھی زندہ نہیں ہوتے ان کی غیر طبعی موت پر ان کو بھی شہید کہا جانے لگا ہے۔ اپنے وطن کے شہیدوں کو سلام۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
شہید کا جو خون ہے وہ قوم کی زکوٰة ہے
میرے بارے میں بھی میرے دوست کہہ دیتے ہیں کہ میں درویش آدمی ہوں۔ درویش اور درویش آدمی میں کچھ تو فرق ہو گا۔ بہرحال ایک غریب آدمی بھی دنیادار ہو سکتا ہے اور ایک امیر آدمی کے لئے بھی آسانی سے جینوئن انداز میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ درویش آدمی ہے۔ میں ذاتی طور پر دل سے سمجھتا ہوں کہ واقعی سعید آسی ایک درویش آدمی ہے۔ اس نے بہت بھرپور زندگی گزاری ہے۔ وہ ایک نامور صحافی ہے۔ ادیب شاعر بھی ہے۔ سماجی شخصیت ہے مگر دل کا بہت سادہ ہے۔ خواہشوں کو پالتا نہیں ہے۔ کچھ لوگ اپنے منصوبوں کو پالتو جانوروں کی طرح اپنے اندر پالتے رہتے ہیں۔ ورنہ خواہش کرنا بری بات نہیں ہے۔ مکھی اور شہد کی مکھی میں بڑا فرق ہے۔ گندگی اور خوشبو میں فرق کرنا آدمی کو آنا چاہئے۔
گوتم بدھ جب برگد کے پیڑ کے نیچے آبیٹھا تو گیان دھیان اور سرورق کی منزلوں کے حصول کے بعد کہا۔ دنیا خواہشوں کا گھر ہے اور دکھ خواہشوں سے چھوٹے ہیں۔ بہت تخلیقی اور نوکھے شاعر شعیب بن عزیز زندگی میں بڑے بڑے منصب پر رہا ہے مگر اس کے اندر کوئی اور آدمی ہے جو اس سے اس طرح کے شعر کہلاتا ہے۔
خوف اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
یہ خواب کے دائرے میں رہنے والے شاعر کا طرز اظہار ہے۔ سعید آسی نے خواب اور انقلاب کی سرحدوں کو ملا جلا دیا ہے۔ اپنے ہی زخم ہیں درد ہیں ٹیسیں ہیں اور اپنے ہی مسیحا ہیں قاتل بھی اپنے ہی ہیں۔ فیض شعر کہتے کہتے چلا گیا مگر وہ زمانہ نہ آیا۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ شاعر دکھوں کو محسوس کرتا ہے۔ کالم نگار دکھوں کو دیکھتا ہے۔ ”کب راج کرے گی خلق خدا“ کیا یہ فیض احمد فیض پر طنز ہے۔ ”نجانے یہ کیا رمز ہے“ کس کی رضا ہے کہ خلق خدا مقہور مجبور محروم معتوب ہو کر اشرافیا¶ں کے پا¶ں تلے کچلی جا رہی ہے۔ آخر ان جھوٹے برتر انسانوں کو اشرف المخلوقات کا مردہ خراب کرنے کا ٹھیکہ کس نے دیا ہے۔“ ہمارے سارے حکمران اور افسران ایک جیسے کیوں ہیں؟ سعید آسی کے کالموں میں سوال ہی سوال ہیں اور جواب کم ہیں سعید آسی نے سوال اٹھائے ہیں اور جواب بھی دئیے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو جواب دیئے ہیں۔
ایک درویش شاعر سائیں اختر کا ذکر سعید آسی کے پیش لفظ میں کیا گیا ہے۔ وہ غریب و غیور تھا۔ انسان کی بے بسی کا رونا روتا رہا مگر اپنی بے بسی کو چھپاتا بھی نہیں اور دکھایا بھی نہیں۔ انہیں ایک دوست نے کہا کہ کوئی خدمت ہے؟ وہ بار بار معذرت کر لیتے۔ ایک دن بڑا اصرار ہوا تو کہا اچھا یار ایک قلفی کھلا دو۔ یہ کیا لوگ تھے۔ خواہشوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ دوستوں نے کبھی سعید آسی سے پوچھا بھی نہ ہو گا۔ کوئی خدمت؟
وزیر اطلاعات پرویز رشید مہنگائی کے جواز کے لئے کہتے رہتے ہیں۔ بیمار کا علاج تو کرنا ہے کڑوی گولی تو کھانا پڑے گی۔ کڑوی گولیاں کھا کھا کے لوگ مر گئے۔ انہیں میٹھی گولیوں کا ذائقہ بھی بھول گیا تھا۔ سعید آسی نے پرویز رشید سے کہا کہ میں کالموں کے ذریعے کڑوی گولیاں حکمرانوں کو کھلانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ پرویز رشید تو یہ کڑوی گولیاں کھا لیتا ہے اور ٹھیک رہتا ہے دوسرے حکمران کڑوی گولیاں کھاتے ہی نہیں وہ بھی ٹھیک رہتے ہیں۔ سعید آسی میری طرح یہ سمجھتا ہے کہ ہماری بے باک تحریریں چھپ جانے کا سہرا ڈاکٹر مجید نظامی کے سر ہے جو خود ایک مرد درویش ہے۔