شیخ رشید کنٹینر برادرز اینڈ کو اپنی حالت زار اور انداز بیاں و زباں میں اس شخص سے مختلف نہیں جو اپنے ٹرین کے ایک سفر کا واقعہ بڑے اعتماد اور فاتحانہ انداز میں سنا رہا تھا کہ ٹرین کے سفر کے دوران ٹکٹ چیکر نے اس سے ٹکٹ طلب کیا تو اس نے اسے ٹکٹ دکھانے کی بجائے نہ صرف ٹکٹ چیکر کو آنکھیں دکھائیں بلکہ اس کی اس گستاخی پر ایک آدھ گالی بھی اسے تھپ دی اس پر ٹکٹ چیکر نے موصوف پر تھپڑوں مکوں اور ٹھڈوں کی بارش کی تو فوراً جیب سے ٹکٹ نکال دکھایا تو کہتے ہیں کہ پھر کیا تھا ٹکٹ چیکر شرم سے پانی پانی ہو گیا۔
ایسے ہی دھرنا برادرز اور شیخ صاحب قربانی سے پہلے قربانی کے ایسے دعوﺅں میں خود شرمسار ہونے کی بجائے کبھی بکرا لنگڑا ہو گیا ہے تو کبھی کچھ اور اول فول بک کر خوش ہو رہے ہیں اس طرح کی بونگیاں مارنے سے وہ قوم کو ہمیشہ کی طرح بے وقوف بنانے کی بجائے خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ان کا پلان میڈ ان لندن اور میڈیا مافیا کی مکمل پذیرائی کے باوجود ”دھرنا دھرنا کردی سی میں آپے دھرنا ہوئی“ استعفی استعفی منگدی میں آپے مستعفی ہوئی۔ سے ہوا کچھ اور نہیں۔
اب ملتان میں شیخ جی اپنی شیخیاں بھگارنے ملک و قوم کے محسن بے داغ سیاستدان بلکہ شیخ رشید کے بھی ساتھی محسن جاوید ہاشمی کے خلاف گوداغی، گو داغی اور گو نواز گو کے نعرے لگوانے کےلئے پہنچے ہی تھے کہ پیمانہ صبر سے لبریز لیگی کارکنوں اور شکست خوردگی مایوسی اور اپنی پارٹی اور پارٹی لیڈر کی تربیت کے اثر سے مجبور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں رو عمران رو گو نواز گواز کا مقابلہ ہو گیا۔ میچ سے پہلے جناب شیخ کا غرور انڈوں اور بوتلوں کی بارش میں نہا گیا۔حسب معمول دھرنا برادرز نے اسے مسلم لےگ کے کرائے کے غنڈوں اور پولیس کے گلو بٹوں کا کارنامہ قرار دیا نمک حلالی کےلئے میڈیا بھی حسب معمول حکومت ہی کو گردن زنی کے قابل ٹھہراتا رہا پی ٹی آئی اور پے اے ٹی کے دھرنوں میں کرائے پر لائے گئے دھرنیوں کی خبریں قومی اور عالمی میڈیا نشر بھی کر چکا ہے۔ PTV پر حملہ کریں ائیر پورٹ پر کسی وزیر کو گھیر لیں تو جاوید ہاشمی کو جنازے میں شرکت پر یرغمال بنا لیں یہ کنٹینرز برادران کے چیلوں کا جمہوری حق ہے کہ وہ کسی کے خلاف بھی داغی یا گو کے نعرے لگائیں ملتان کے بے چارے مسلم لےگی اور حکومتی ترجمان چلاتے رہ گئے کہ یہ انہی لوگوں کی لگائی آگ اور انارکی پھیلانے کی کوششوں کا ثمر ہے مگر میڈیا پرانی رٹ پر قائم تھا سو اس کے سوا کیا کیا جائے
اور میڈیا حسب معمول لیگوں جن کا جرم حکومت میں ہونا ہے کہ اس آواز کو دباتا رہا جو فرمان شاعر
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
اس طرح کے نعرے اور احتجاجی مظاہرے کسی بھی جمہوری ملک میں اجنبی نہیں اور بجا طور پر انہیں جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے پرویز مشرف جیسے آمر کو مک گیا تیرا شو مشرف گو مشرف گو کی الوداعی قوالی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن قادری، عمران برادرز اینڈ کو نہ جانے کونسا نیا پاکستان اور کونسا نیا نظام لانے کے درپے ہیں کہ محل نما کنٹینرز میں بیٹھ کر وی آئی پی کلچر کا خاتمہ۔ رات بھر ٹھمکے لگا کر اور گاندھی کو آئیڈل قرار دیکر فلسفہ اقبال کی ترویج، ضد ہٹ دھرمی اپنا کر ایک شائستہ سنجیدہ نظام کی بنیاد، دائیں بائیں آگے پیچھے کرپٹ عوام کی عدالت سے راندہ سیاستدانوں سے بغل گیر ہو کر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کرپشن سے پاک معاشرہ کی تشکیل۔ نواز شریف کو ایمپائر سے مل کر کھیلنے کے طعنے دیکر خود ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار پارلیمنٹ عدلیہ اور دیگر قومی اداروں سے عوام کا اعتماد ختم کر کے مضبوط قومی اداروں کی بنیاد، آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کو نظر انداز کر کے عوام کے سب سے بڑے ہمدرد، ضرب عضب اور سرحدوں پر بھارتی چھیڑ چھاڑ کی پرواہ کئے بغیر انتظار کی سیاست پھر بھی محب وطن قوم کا مستقبل نوجوانوں میں غصہ، بغض عناد کے بیع بو کر اچھے مستقبل کی امید یہی نیا پاکستان پاکستان ہے تو اللہ بچائے اس سے ہمیں قائد اور اقبال کا وہی پاکستان چاہئیے جو لاالہ الا للہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ اور یہی کلمہ حق اس کا اصل نظام ہے۔ صحافیوں سمیت سب سے دست بستہ گزارش ہے کہ پاکستان ہے تو ہماری یہ من مانیاں ہیں اور اس میں جمہوریت ہے تو آپ دوسروں کو گالیاں تک بکنے کے باوجود آزاد ہیں اس کے نہیں بنتے تو اپنے ہی بنیں کیا یہ پاکستان نبی اکرمﷺ کی پیشن گوئی ہونے کا اعجاز نہیں کہ ہمیشہ اس کے بدخواہ ہی رسوا ہوئے۔ قوم کو اجتماعی شعور اور مثالی یک جہتی مبارک ہو کہ طاہر القادری نے گریبان پکڑ کر حکومت چھیننے کا یوٹرن لیکر بذریعہ ووٹ تبدیلی کا فیصلہ کر لیا تبدیلی آگئی ہے انشاءاللہ آتی رہے گی مبارک ہو۔
”گو نواز گو“، ”رو عمران رو“
Oct 15, 2014