کون بنے گا وزیراعظم؟ اور نئے صوبے

ڈاکٹر طاہرالقادری کی فیصل آباد میں تقریر فیصلہ کن تھی۔ انہوں نے صاف کہا کہ عوام مجھے سپورٹ، ووٹ اور نوٹ دیں تو انقلاب لے آئوں گا۔ عوام کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ سب کچھ قادری صاحب کا تو فرض نہیں۔ وہ بہت لائق آدمی ہیں۔ ان جیسا خطیب آج کل پورے پاکستان میں نہیں ہے۔ تقریر وہ زبردست کرتے ہیں مگر تقریر سے تقدیر نہیں بدلی جا سکتی اپنے لئے پسندیدگی والے ہجوم کو ایڈریس کرنا عمران خان کو بھی آ گیا ہے۔ وہ مربوط تقریر نہیں کر سکتے مگر جو ’’ٹوٹے‘‘ وہ چلاتے ہیں وہ بہت کارگر ہو رہے ہیں۔ رہی سہی کسر گو نواز گو کے نعروں اور گانوں نے پوری کر دی ہے۔ باقی کام ناچنے والوں اور ناچنے والیوں نے مکمل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے میں بھی گانے گونجنے لگے ہیں۔ ان گانوں کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لئے ترانے کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ طاہرالقادری کے جلسے میں گانے زیادہ ولولہ انگیز اور پرجوش تھے۔ طاہرالقادری کا جو خیرمقدم ہوا وہ عمران خان کی پذیرائی سے بہت زیادہ تھا پھولوں کی بارش اور خواتین و حضرات کی پرجوش تالیوں نے سماں باندھ دیا۔ 
قادری صاحب نے جو باتیں کیں وہ عمران خان کے لئے لمحۂ فکریہ ہیں جو المیہ بن  سکتی ہیں۔ نوٹوں اور ووٹوں کے حصول کے بعد قادری صاحب انقلاب لے آئے تو عمران خان کا کیا بنے گا۔ انہوں نے بار بار کہا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے تو پھر عمران خان کیا کر دیں گے۔ ان کی حکومت کا کیا ہو گا۔ جہاں تک انقلاب کا تعلق ہے تو اب اس کے لئے عمران خان اتنے بے تاب نہیں ہیں۔ انہیں انتخاب کی فکر ہے۔ بلکہ فکری مندی ہے۔ قادری صاحب کو بھی اب انتخاب کی پریشانی ہے۔ انتخاب کون جیتے گا۔ اس کے لئے عمران خان اور طاہر قادری کو برابر برابر امید ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دونوں امید سے ہیں۔ قادری صاحب نے جلسے عمران خان کے مقابلے میں شروع کئے ہیں کیونکہ نواز شریف اور ’’صدر‘‘ زرداری کے حوالے سے وہ بالکل خوف زدہ نہیں۔ وہ تو دونوں کے خیال میں کسی شمار قطار میں نہیں ہیں تو مقابلہ تو ان دونوں کا آپس میں ہے۔ طاہر قادری صاحب اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ان کا جلسہ عمران کے جلسوں سے بڑھ کر نہ  تھا تو کم تر بھی نہ تھا۔ اصل میدان مینار پاکستان میں قادری صاحب کے جلسے میں لگے گا اور لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عمران کے جلسہ سے بڑا جلسہ ہو گا۔ تو تکلفاً لگائے گئے ’’قادری عمران بھائی بھائی‘‘ کے نعرے کی کیا ضرورت ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب عمران قادری بائی بائی کے نعرے لگیں گے۔ عمران اگر قادری ہو گئے ہیں تو آپ قادری صاحب کے لئے طاہر خان قادری کا نام عام کرنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی بنے گی اور کون بنے گا وزیراعظم؟ یہ صورتحال نواز شریف کے لئے اور ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے بہت حوصلہ افزا ہے اس افراتفری میں بلاول بھٹو زرداری کے لئے وزیراعظم ہونے کا چانس زیادہ ہے۔ باری بھی پیپلز پارٹی کی ہے جسے توڑنے کے لئے عمران اور قادری میدان میں بلکہ میدان جنگ میں آئے ہیں۔ ممکن ہے وزیراعظم خود ’’صدر‘‘ زرداری بن گئے تو دو چار اہم وزارتیں بلاول کو دے دی جائیں گی۔ شیری رحمان کے دوبارہ وزیر اطلاعات ہونے کا امکان ہے کیونکہ وہ بلاول کے ’’شانہ بشانہ‘‘ نظر آتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک بیورو کریٹ سیاست دان خاتون ہیں۔ وہ تو عمران خان کی طرح عام عورتوں یعنی جیالیوں سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتیں۔ میں سوچتا ہوں کہ فریال تالپور کہاں ہیں؟ شہلا رضا، شازیہ مری اور شرمیلا فاروقی کو کیوں لفٹ نہیں کرائی جا رہی ہے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک وزیر اور سفیر کے بعد شیری رحمان کو مشیر کیوں نہیں بنایا گیا۔ اس کے لئے ممبر سندھ اسمبلی ہونا ضروری نہیں ہے۔
ن لیگ میں چوتھی بار بھی نواز شریف خود وزیراعظم ہوں گے۔ ن لیگ میں بھی یہ عہدہ متنازعہ شکل اختیار کر رہا ہے۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ اب شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کا موقعہ ملنا چاہئے۔ چودھری نثار  بھی بڑے پکے امیدوار ہیں۔ مریم نواز کو بھی اسی منصب کے لئے تیار کیا جا رہا ہے وہ سرگرم ہیں۔ حمزہ شہباز کو پنجاب تک محدود رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان بھی خود بخود امیدوار ہیں اب تو سراج الحق بھی میدان میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگلی باری جماعت اسلامی کی ہے۔ اس کے لئے کمپیٹیشن بہت ہے مقابلہ سخت ہے۔
مگر اصل کمپیٹیشن اب عمران خان اور طاہر قادری کے درمیان ہے۔ عمران خان اور طاہر قادری نے انقلابی مہم یعنی دھرنا چھوڑ کر انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ سسٹم کی مخالفت کرتے کرتے خود بخود سسٹم میں آ گئے ہیں۔ بڑے کامیاب جلسے دونوں کے ہو رہے ہیں۔ اب اس میدان میں  پیپلز پارٹی بھی کود پڑی ہے اور 18 اکتوبر کو کراچی میں ایک بڑا جلسہ ہو رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو مزار قائد پر نہ پہنچ سکی تھیں۔ اب بلاول پہنچیں گے اسی ٹرک اسی راستے سے یہ سفر شروع ہو رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ بڑے بزرگ سیاست پیپلز پارٹی کے اب تو نہال سیاست دان بلاول کی قیادت میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ بلاول کی آنٹیوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر سب سے سرگرم آنٹی شیری رحمان ہیں۔ بختاور یہاں ساتھ نہیں ہے کہ پھر وزیراعظم کا تنازعہ پیدا ہو جائے گا۔
طاہر قادری نے نئے صوبے بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ پہلا صوبہ فیصل آباد ہو گا پھر انہوں نے گوجرانوالہ، پنڈی اور سرگودھا کا نام  لیا سب صوبے وسطی پنجاب میں ہوں گے۔ ایک صوبہ جنوبی پنجاب کی طرف سے ملتان ہو گا مگر اس کے ساتھ سرائیکی صوبہ کا اعلان بھی کیا گیا۔ ملتان الگ صوبہ ہو گا تو پھر سرائیکی صوبہ کہاں بنے گا۔ زیادہ صوبے وسطی پنجاب میں سے ہوں گے۔ پہلے بھی نئے ضلعے  بنائے گئے تو وہ بھی تقریباً سب کے سب وسطی پنجاب میں سے تھے۔ اور ان کے ذریعے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ میں حیران بلکہ پریشان ہوں  کہ قادری صاحب نے بہاولپور کو بالکل نظر انداز کیا جب کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے ریاست تھی۔ پنجاب میں چکوال، بھکر اور چنیوٹ وغیرہ ضلعے بنائے گئے جب کہ بہاولپور کے وہی تین ضلعے ہیں اور وہاں تقریباً دس ضلعے بہت آسانی سے بن سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے قادری صاحب نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے کو اس طرح بھلایا کہ جیسے وہ کچھ  حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ سندھ کے لئے الطاف حسین نے  نئے صوبوں کی بات کی تو بلاول نے کہا مرسوں مرسوں  سندھ نہ ڈیسوں۔ تو کیا تقسیم کرنے کے لئے صرف پنجاب رہ گیا ہے۔ یہ بھی نعرہ بلاول نے پنجاب میں لگایا تھا۔ مرسوں مرسوں پنجاب نہ ڈیسوں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عمران خان اور قادری صاحب صرف پنجاب میں تحریک چلا رہے ہیں۔ لاہور کے بعد قادری صاحب کا جلسہ پشاور میں ہونا چاہئے۔ عمران کو کوئٹہ میں جلسہ کرنا چاہئے۔ عمران بھی صوبوں کے حق میں ہے۔ وہ بھی پنجاب میں صوبوں کے حق میں ہے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ ضروری ہے اور کوئی اس کے خلاف نہیں۔ بہاولپور کی بھی الگ حیثیت ہونا چاہئے۔ 

ای پیپر دی نیشن