قارئین کرام! گذشتہ ہفتے صوبہ پنجاب ضمنی انتخاب کی جذب و کیف و جنون کی کیفیت سے گزراجس کی گرمی کا احساس ابھی تک سوشل میڈیا پر محسوس کیا جا رہا ہے ۔ گو کہ ضمنی انتخاب اوکاڑہ میں بھی ہوا جہاں ووٹر ٹرن آئوٹ لاہور سے زیادہ رہا جہاں ایک آزاد اُمیدوار کے مقابلے میں تینوں اہم سیاسی جماعتوں ، مسلم لیگ(ن) ، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دنیا بھر میں پاکستانیوں کی نظریں لاہور میں ہونیوالے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 147 پر لگی رہیں۔ این اے 122 کا معرکہ اِس لئے بھی اہم تھا جہاں عمران خان کی انتخابی عذرداری کی کامیابی کے سبب قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اپنی سیٹ سے محروم ہونے کے بعد دوبارہ انتخاب لڑ رہے تھے جبکہ عمران خان جو 2013 کے انتخابات میں راولپنڈی سے بھی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے، نے شطرنج کی اِس پُرجوش انتخابی بساط پر ممبر قومی اسمبلی ہونے کے سبب اِس حلقے سے خود انتخاب نہیں لڑا بلکہ شطرنج کی بساط پر عبدالعلیم خان کو آگے بڑھایاجہاں وہ ایاز صادق کے مقابلے میں صرف دو ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں سے انتخاب ہار گئے جبکہ اِسی علاقے میں پنجاب اسمبلی حلقہ 147 سے تحریک انصاف کے شعیب صدیقی نے غیر متوقع طور پر مسلم لیگ (ن) کے اہم اُمیدوار محسن لطیف کو شکست دے دی۔
الیکشن ٹربیونل نے انتخابی عذرادی پر اِن دونوں نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔حیرت کی بات ہے کہ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سردار ایاز صادق بھرپور انتخابی مہم جس میں اُنہیں انتخابی ضابطہ اخلاق کی موجودگی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم وزراء کی حمایت حاصل رہی اور انتخاب سے دو روز قبل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی خصوصی طور پر لاہور تشریف لائے اور مبینہ طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ہمراہ انتخابی عمل سے بخوبی باخبر رہے لیکن پھر بھی اِس ہائی پروفائل انتخابی معرکہ میں ایاز صادق تحریک انصاف کے نسبتاً غیر معروف اُمیدوار عبدالعلیم کے مقابلے میں 2013 کے انتخابات میں حاصل کردہ 93362 ووٹ کے ہدف سے تقریباً بیس ہزار ووٹ پیچھے رہے اور ضمنی انتخاب میں محض دو ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں سے ہی کامیاب ہوئے جبکہ پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر مسلم لیگ کے محسن لطیف جو 2013 کے انتخابی معرکہ میں پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی کے مقابلے میں چھ ہزارسے زیادہ ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے اپنے ہدف سے 36781 ووٹوں سے کہیں زیادہ پیچھے رہے اور ضمنی انتخاب میں تین ہزار سے زیادہ ووٹوں سے یہ نشست ہار گئے لیکن پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے 2013 کے انتخاب کی نسبت ڈیڑھ ہزار ووٹ زیادہ حاصل کئے۔ گویا کہ لاہور کے اِس انتخابی معرکہ میں دونوں جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ پیپلز پارٹی اوکاڑہ اور لاہور کے انتخابی معرکہ میں مکمل طور پر واش آئوٹ ہوگئی ہے ۔ این اے 122 میںتحریک انصاف کے نسبتاً غیر معروف اُمیدوارسے سخت مقابلے کے بعد ایاز صادق کی کامیابی پر لاہور میں مسلم لیگ (ن) نے جشن منایا ہے ، مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں لیکن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے کیو نکہ بیشتر ملکی اور بیرونی میڈیا تجزیہ نگار اِسے تیکنیکی طور پر عمران خان کی بڑھتی ہوئی ہردلعزیزی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بالخصوص اوکاڑہ اور پی پی 147 لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدواروں کی آزاد اُمیدوار اور تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
درج بالا تناظر میں سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کی جانب سے جانب سے الیکشن کمیشن پنجاب اور نادرا کی مبینہ ملی بھگت کا الزام لگایا گیا ہے کہ ضمنی انتخاب کو شفاف بنانے کے بجائے این اے 122 میں تحریک انصاف کے حامی ووٹوں کو نہ صرف دیگر علاقوں میں منتقل کیا بلکہ اِس ردوبدل سے متعلقہ فہرستیں دیر گئے مہیا کی گئی ہیں جس کا پتہ اُس وقت چلا جب تحریک انصاف کے کچھ ووٹروں نے پولنگ اسٹیشنوں سے واپسی پر بتایا کہ ووٹ فہرست میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ نادرا اور پنجاب الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں کیا ہے کیونکہ اِس اَمر کی تائید خود ایاز صادق نے جوابی میڈیا بیان میں یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ ووٹر لسٹوں میں غلطیاں تھیں ، بہت سا ووٹ یہاں آیا اور ہمارا ووٹ باہر گیا، شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اُنہیں 2013 کے انتخاب کی نسبت تقریباً بیس ہزار ووٹ اِسی وجہ سے کم ملے ہیں؟ ایاز صادق کی یہ وضاحت ناقابل فہم ہے کیونکہ اُنہیں وفاق اور پنجاب کے وزرأ کی حمایت حاصل تھی لہذا اُنکے ووٹوں کی دیگر علاقوں میں منتقلی قرین از قیاس نہیں ہے ۔ بہرحال نادرا اور پنجاب الیکشن کمیشن کی مبینہ کوتاہیوں کے باوجود فوج اور رینجرز کی موجودگی میں ہونے والے یہ ضمنی انتخاب شفاف انداز میں منعقدہوئے ہیں لیکن یہ اَمر عوام الناس کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ضمنی انتخاب کے موقع پر نادرا اور الیکشن کمیشن نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ قارئین کرام، نادرا اور الیکشن کمیشن سے متعلقہ اِس نوعیت کی بے قاعدگیوں کی شکایات ضمنی انتخاب میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام ہی صوبوں سے تواتر سے موصول ہوتی رہی ہیں ۔ گو کہ آئین کی آرٹیکل 219 (a) کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے انتخابی فہرستیں بنانے اور سالانہ بنیادوں پر اِنہیں درست کرنے کیلئے الیکشن کمشنر کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے جس میں اب دامے درمے اور سخنے نادرا بھی شامل ہو چکی ہے ۔انتخابی قوانین کے مطابق کسی بھی انتخابی علاقے میں رہنے والا پاکستانی شہری یا پراپرٹی رکھنے ولا کوئی بھی شخص ایسے علاقے کا ووٹر بن سکتا ہے جبکہ سرکاری ملازمین اپنی ملازمت یا اپنی رہائش کی جگہ اپنا ووٹ درج کرا سکتے ہیں لیکن مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب الیکشن کمیشن یا نادرا کے اہلکار اربابِ اختیار کی جنبش اَبرو پر یا اپنی صوابدید کیمطابق کسی بھی ووٹ کو دوسرے علاقے میں منتقل کر دیتے ہیں ۔ اندریں حالات ، راقم کسی اور کا ریفرنس دینے کے بجائے الیکشن کمیشن اور نادرا کے حوالے اپنی ذاتی مثال پیش کرنے پر ہی اکتفا کریگا جس سے ووٹر لسٹوں کی تکمیل کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور نادرا کے منفی رویہ کی وضاحت بخوبی ہو جاتی ہے۔ راقم چشتی آباد پنڈورہ ، سید پور روڈ راولپنڈی میں مکان CA-155 میں رہائش پزیر ہے ۔ یہ مکان مئی 1998 سے 2004 تک سیلف ہائرنگ کے حوالے سے راقم کی سرکاری رہائش گاہ بھی رہی ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد کوششوں کی ناکامی کے بعد راقم نے محترم چیف الیکشن کمشنر سے ووٹ بنانے کی درخواست کی تو ڈپٹی سیکریٹری (الیکشن) الیکشن کمیشن اسلام آباد نے ایک فوری خط کے ذریعے راقم کی درخواست پر ڈپٹی الیکشن کمشنر راولپنڈی کو فوری ایکشن کیلئے کہا۔اگلے ہی دن ڈپٹی الیکشن کمشنر آفس نے مجھے مطلع کیا آپکے ووٹ حلقے میں درج ہو گئے ہیں لیکن انتخابات کے موقع پر معلوم ہوا کہ یہ ووٹ کسی اور کے گھر کے ایڈریس پر کسی اور علاقے میںمنتقل کر دئیے گئے ہیں۔ دوبارہ کوشش کی گئی چیف الیکشن کمشنر کو مطلع کیا گیا ، نادرا سے شناختی کارڈ کی تجدید کرائی گئی ۔ گذشتہ ماہ نادرا کی ویب سائٹ سے موبائل فون پر چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کی یہ ووٹ ضرور موجود ہیں لیکن چشتی آباد کے بجائے ناظم آباد کے علاقے میں منتقل کر دئیے گئے ہیں۔ ایں چہ بولعجبی است۔