مولانا حافظ الدینؒ کا سالانہ عرس مبارک

اﷲ تبارک و تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اس کی اشاعت کا ذمہ اﷲ کے نیک بندوں نے لیا ہوا ہے کیونکہ علماءنبیوں کے وارث ہیں۔ عرب سرزمین سے دنیا کے مختلف ممالک سے ہوتا ہوا یہ دین ہندوستان میں پہنچ گیا۔ جن بزرگوں نے ہندوستان میں دین کو پہنچایا ان میں ایک مشہور خاندان حافظیہ بھی تھا اس خاندان کے بزرگ وادی ہریانہ میں قیام پذیر ہو گئے اور دین کی اشاعت تیزی سے ہونے لگی۔اس خاندان حافظیہ کے ایک بزرگ مولانا امام الدینؒ روہتک سے چند کوس کے فاصلے پر ریاست دوجانہ میں فروکش تھے۔ آپ نے صرف علم کی اشاعت ہی نہیں کی بلکہ عامل بھی کمال کے تھے۔ اس وقت کے دوجانہ کے نواب کے محل پر جنوں نے قبضہ کر لیا۔ آپ نے اس کے محل کو جنوں سے آزاد کرایا۔ ریاست دوجانہ کے ساتھ لاتعداد گا¶ں تھے وہاں کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اسی طرح یہ خاندان حافظیہ دین کی خدمت کرتا رہا۔ مولانا امام الدینؒ کے صاحبزادے مولانا حافظ الدین تھے۔ آپ نے ۹ سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ اس کے بعد اس وقت کے مشہور عالم مولانا امام بخش سے عربی ‘ علم و ادب‘ صرف و نحو‘ لغت و عروض‘ فقہ‘ تفسیر حدیث ‘ہندسہ النساب اور فن مناظرہ کی تکمیل کی۔ اس کے بعد مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ وہاں پر مولانا سید حسین مکی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ مکہ معظمہ میں مدرسہ صولیتہ میں درس و تدریس فرمانے لگے۔ والد کے انتقال پر نجد بحرین مسقط میں تبلیغی مشن خیرباد کہہ کر عازم دوجانہ ہوئے۔ دوجانہ میں آپ نے رشد و ہدایت تبلیغ اور تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کے لاتعداد تلامذہ میں پیر سید جماعت علی شاہ جیسی ہستی بھی شامل تھی۔ آپ نے لاتعداد دینی مدارس کھلوائے جن میں قرات‘ حفظ و ناظرہ‘ فقہ و حدیث کی مفت تعلیم دی جاتی تھی بلکہ قیام و طعام کا بھی انتظام مفت ہوتا تھا۔ ایسا ہی ایک مدرسہ خیرالمعاد روہتک میں جس کی بنیاد ۱۳۰۰ھ میں رکھی گئی قائم کیا جو آج بھی قلعہ کہنہ قاسم باغ پر دین کی خدمت میں مصروف ہے۔ ہریانہ کے اکثر راجپوت پٹھان ‘ بیوپاری شیخ اور مسلم جاٹ آپ کے ارادت مند ہیں۔ آپ عبادت گزار شب بیدار اور حق گوئی کا پیکر تھے۔ آپ کا رسالہ مرا‘ المحدین علم کا ایک خزانہ ہے۔ آپ کے صاحبزادے قاری سید حسن شبر تھی اپنے وقت کے جید عالم دین‘ نعت گو شاعر اور قرآن کی قرات کرنے والے عظیم قاری تھے۔ آپ قاری تخلص رکھتے تھے۔ نمونہ کلام
سب کا والی مولانا ہمارا نبی
دین و دنیا کا دولہا ہمارا نبی
اس کے القاب ہیں مصطفی مجتبیٰ
سار نبیوں سے بالا ہمارا نبی
قاری سید حسن شبر کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے قاری سید فیض الحسن نے دین کی خدمت جاری رکھی۔ ان کے ہاتھ پہ لاتعداد ہندو¶ں نے اسلام قبول کیا اور پاکستان بننے پر آپ نے دیکھا کہ وہاں کے ہندو نو مسلموں کو دوبارہ ہندو بننے پر مجبور کر رہے ہیں توآپ نے اپنی اولاد کو پاکستان بھیج دیا بعد ازاں ان نو مسلموں کو پاکستان بھیجتے رہے۔ پاکستان کے لاتعداد گا¶ں ایسے ہیں جن میں یہ لوگ آباد ہیں پھر ان کے صاحبزادے قاری وضاحت حسن نے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد حافظ پروفیسر حافظ صباحت حسن نے اپنے بزرگوں کے حالات زندگی مناقب المشائخ کتاب کی صورت میں لکھے۔ حضرت مولانا حافظ الدینؒ کا وصال ۱۴ محرم الحرام ۱۳۲۵ھ ۲۷ فروری ۱۹۰۷ءکو ۸۲ سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کا ۱۱۳ واں سالانہ عرس مبارک ۱۶ اکتوبر کو مزار قاری وضاحت حسن‘ پروفیسر صباحت حسن بروز اتوار ہو گا جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے مریدین اور عقیدت مند حضرات شرکت کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...