مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استعمار سے آزادی کی حالیہ تحریک انتفاضہ کو 100 دن مکمل ہو گئے، وادی بھر میں مظلوم اور نہتے عوام پر بھارتی فوج کے مظالم اور کرفیو کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کرفیو اور سخت پابندیوں کے باوجود احتجاجی جلوس اور مظاہرے کیے گئے جنہیں منتشر کرنے کیلئے بھارتی فورسز نے آنسو گیس اور پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی ،دن بھر جاری رہنے والی جھڑپوں میں50 افراد زخمی ہوئے اور اس دوران چھاپوں میں مزید 63 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ سرینگر کے انتہائی حساس علاقے گپکار کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خاردار تاروں سے سیل کر دیا گیا ہے۔ سرینگر کے مضافاتی علاقے پیر باغ میں ائر پورٹ روڑ پر اس وقت زبردست افراتفری کا ماحول پیدا ہوا جب بھارتی فورسز اور پولیس نے جلوس کو منتشر کرنے کیلئے ٹیئر گیس کے گولے داغے۔ پیر باغ اور نواحی علاقوں سے احتجاجی جلوس برآدمد کیا گیا جس میں شامل مرد و زن اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کر رہا تھا۔ پالہ پورہ نورباغ میں جلوس نکالا گیا جن میں ملحقہ مقامی آبادی کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہوتے گئے۔ ادھر ناربل میں شام کے وقت نوجوان مشتعل ہوئے اور انہوں نے فورسز پر زبردست پتھراﺅ شروع کیا ۔اس دوران ماچھو میں بھی جلوس برآمد کرنے کی کوشش کے بعد نوجوانوں نے فورسز پر سنگبازی کی جس کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔4افراد زخمی ہوئے۔ بارہمولہ میں پاکستان اور چین کے جھنڈوں پر مشتمل مشترکہ بینر آویزاں کیا گیا تھا جس پر پاک چین دوستی زندہ باد کانعرہ لکھا گیا تھا۔ بنگلہ باغ کے لوگوں نے الزام لگایا کہ نوجوانوں کا پیچھا کرنے کے دوران پولیس اور فورسز نے متعدد مکانات کے شیشے، دروازے اور کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔ حریت پسند قیادت نے کہا ہے کہ کشمیر کا حل صرف سیاسی طور پر نکل سکتا ہے نہ کہ فوجی طاقت سے۔مقبوضہ کشمیر کے گورنر این این ووہرا کے نام حر یت قیادت نے اپنے مکتوب میں کہا آپ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ آپ کے ملک کی پچھلے 70سال کی کارروائیوں سے جموں و کشمیر میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے ہیں، بھارتی فوج نے زبردستی ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسکو ایک سیاسی حل کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا اسی لئے پورے خطے میں خوف، بے چینی اور عدم استحکام جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ بھارت اقوام متحدہ لیکر گیا جہاں کئی قرار دادیں پاس ہوئیں جن پر ابتک عمل نہیں ہوا ہے۔ حق خود اداریت کیلئے استصواب رائے منعقد کرنا آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ۔چونکہ آپ جموں و کشمیر میں بھارت کی پالیسی کے اطلاق کے ذمہ دار ہیں یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ بھارت کو اس بات پر قائل کرےںکہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسکو صرف سیاسی طریقہ سے ہی حل کیا جاسکتا ہے فوجی طاقت سے نہیں۔ حریت کانفرنس (ع) نے میرواعظ عمر فاروق کی مسلسل نظربندی کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے ان کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا ہے ,ریاستی انتظامیہ نے حریت چیئرمین کی نظربندی میں 17 اکتوبر تک توسیع کردی , گھر اور دفتر سے رابطے منقطع , کاٹی گئی ٹیلیفون لائنیں تین ماہ گزرنے کے باوجود بحال نہ ہوسکیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے انگریزی روزنامہ ”کشمیر ریڈر“ کی اشاعت پر پابندی کو آزادی اظہار رائے کیلئے دھچکا قرار دیتے ہوئے حکومت جموں کشمیر پر پابندی کا حکمنامہ فوری طور واپس لینے پر زور دیا ہے۔ ایمنسٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹنگ کے حوالے سے میڈیا ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے وہ پریس کی آزادی اور اطلاعات حاصل کرنے کے لوگوں کے حق کا احترام کرے۔