پاک ۔افغان پالیسی1988-1980

Oct 15, 2017

میجر جنرل (ر) شفیق احمد اعوان

چند دنوں سے ہمارے محترم وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی دورے کے دوران کچھ بیانات دیئے ہیں جس میں ایک یہ کہ ”1980کی دہائی میں جو لڑائی افغانستان میں لڑی جارہی تھی اُس میں پاکستان کا امریکہ کا ساتھ دینا غلط تھا“۔ خواجہ صاحب کے مزید بیانوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی جھلک نظر آتی ہے لیکن اس وقت راقم صرف اس موضوع پراکتفا کریگا ۔ 1979ءکے آخر میں سوویت روس کا حملہ کرنا اور افغانستان پر قبضہ کرنا اس خطے کیلئے بہت بڑا حادثہ تھا جسکے دور رس نتائج نکلے اور نکلتے رہیں گے۔ لیکن اس جنگ کے اسباب و نتائج کو درست طریقے سے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

1979ءمیں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت تھی اور بادشاہت ختم ہو گئی تھی۔ پڑوسی ایران میں اسلامی انقلاب آگیا تھا جو امریکہ مخالف تھا۔ پاکستان میںوزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزولی کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی اورجنرل ضیا اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کررہے تھے۔
بھارت سوویت یونین کا دوست تھا۔ ان حالات میں سوویت یونین کا افغانستان میں فوجیں اُتارنا اور قبضہ کرنے کے مقاصد کیا تھے؟ سوویت یونین کا افغانستان پر قبضہ کرنے کیلئے وقت نہایت موزوں تھا کیونکہ جنوبی ایشیاءمیں امریکہ کا اثر بالکل نہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ افغانستان پر قبضہ consolidate کرنے کے بعد پاکستان جو پہلے ہی اندرونی سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے اُس سے کم از کم سمندر تک رسائی حاصل کر لی جائے ۔ جو ایک سپر پاور کیلئے مشکل نہیں تھا خاص کر اس لئے کہ بلوچستان کی غربی اور جنوبی حصے کی آبادی کم اور دفاعی لحاظ سے کمزور تھا ۔ اس کاروائی میں کسی تیسرے ملک کی مزاحمت کا امکان بالکل نہ تھا جبکہ زیادہ امکان تھا کہ بھارت سوویت روس کے ساتھ ملکر اپنے حصے کا گوشت ضرور حاصل کر لیتا۔
البتہ سوویت یونین افغانستان کے باشندوں کے خصائل سے نا واقف تھا۔ انہوں نے اس ملک کو بھی بس سنٹرل ایشیاءکی مملکتوں جیسا ہی سمجھا جہاں اُس نے آسانی سے کئی دہائیوں سے قبضہ جما رکھا تھا اور اُنہیں دین سے الگ اور غلام بنا رکھا تھا۔انہیں پاکستان میں دین اسلام کی طاقت کا بھی اندازہ نہ تھا۔
سوویت یونین کے قبضہ سے پہلے بھی افغانستان کے لوگ وہاں کمیونسٹوں کی حکومت سے متنفر تھے اور اُن کے اسلامی ذہن رکھنے والے خاصے زعماءپاکستان آچکے تھے لیکن سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان کے غیور عوام نے روسیوں کے تسلط میں رہنے کی بجائے ہجرت کو ترجیح دی۔ خوش قسمتی سے اُس وقت پاکستان کا حکمران جنرل ضیاءالحق اسلامی ذہن رکھتا تھا جس نے افغان مہاجرین کو پاکستان میں مدینہ منورہ کی ہجرت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خوش آمدید کہا۔کیا پاکستان اِن مہاجرین کو پاکستان آنے سے روک دیتا؟
پاکستان کے ہر کونے میں یہ مہاجرین گئے اور انہیں ہر کہیں اسلامی جذبے سے بسا یا گیا۔ پوری دنیا نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ نے اس کےخلاف کارروائیاں کیں اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پوری دنیا نے افغان مہاجرین کی دل کھول کر مدد کی خصوصاََ مسلمان ممالک نے الحمداللہ
سوال :۔کیا پاکستان میں کوئی ایسا انسان ہوگا جو ضیاءالحق کی اس معاملے میں مخالفت کر یگا یا اس پالیسی کو غلط کہے گا؟
لاکھوں مہاجرین آگئے اور آرہے تھے لیکن سوویت یونین تو اپنے تزویراتی مقاصد حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو افغانستان پر مسلط کر رہا تھا۔ کچھ افغانستان کے قومی زعماءمسلح مزاحمت کر رہے تھے لیکن ایک سپر پاور کے خلاف یہ مزاحمت آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہو سکتی تھی۔
سوال:۔ اس وقت پاکستان کو کیا پالیسی اختیار کرنی چاہئے تھی؟
کیا پاکستان کی پندرہ کروڑ آبادی جو دین اسلام سے سرشارہے۔جس نے یہ ملک اللہ اور اسکے رسول کا نام لے کر حاصل کیا تھا وہ اپنے پڑوس میں اپنے ہم مذہب اور ہم نسل لوگوں پر بغیر وجہ ناجائز قبضہ کو چپ کر کے برداشت کرتا رہتا؟ ایسا کرنا قرآن و سنت کی یقیناًََ خلاف ورزی ہوتی۔ چلو ہم یہ بھی مان جاتے ہیں جس طرح چند لادین لوگ یا ”پاکستان فرسٹ“ کا پرچار کرنےوالے کہتے ہیں کہ افغانستان ایک علیحدہ ملک ہے جس کیلئے ہمیں فکر نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن کیا ہمیں سوویٹ یونین کے آگے والے عزائم پرتوجہ نہیں دینی چاہئے تھی؟ وہ کیا تھے اور پاکستان پر کس طرح اثر انداز ہوتے ؟ اگر ہم mesmerizedچڑیا کی طرح کچھ کئے بغیر بیٹھے رہتے تو کیا ہوتا؟
سوویت یونین افغانستان میں مستحکم ہو کرکم از کم بلوچستان پر قبضہ ضرور کرلیتا ۔ اسکے بعدبھارت سے ہم آہنگی سے خلیجی ممالک پر حاوی ہو جاتا۔ سوویت یونین کی معیشت کوایک بہترین سہارا مل جاتا ۔امریکہ اس خطے میں اُنکے خلاف کچھ نہ کر سکتا اور دنیا کی واحد سپر پاور سوویت پوش ہوتا۔ پاکستان میں مہاجرین کا کیا بنتا ہمارے نیو کلیئر منصوبے کہاں جاتے اور ہمارا مستقبل وہی ہوتا جووسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہو چکا تھا۔ بھارت ایسے حالات میں کیا کچھ کرتا؟ ہمارے سرخے کیا کچھ کرتے ؟ان حالات اور خدشات میں پاکستان نے درست پالیسی اختیار کی کہ سوویت یونین کو افغانستان سے واپس چلے جانا چاہئے۔ ہم یہ مقصد تن تنہا کیسے حاصل کر سکتے تھے؟ سوویت یونین بلا شک ایک سپر پاور تھی۔
پاکستان نے امریکہ کی مدد نہیں کی بلکہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ہمارے مقاصد سے امریکہ کے مقاصد کی ہم آہنگی ہو گئی گو کہ امریکی مقاصد، یعنی سوویت یونین کی معیشت کو ضرر پہنچانا اور اُس سے ویت نام کی شکست کا بدلہ لینا تھا لیکن ہماری مادی کمزوری اپنی زمین کی سلامتی اور دینی فریضہ کا تقاضا اسی میں تھا کہ امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو افغانستان سے باہر کیا جائے۔ اگر آپکے دیرپا مقاصد حاصل کرنے کیلئے وقتی طور پر نا پسندیدہ فریقوں سے صلح جوئی کر لی جائے تو دانائی اسی میں ہے۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے اور باقی دنیا بھی اسی پر عمل پیرا ہوتی ہے۔
جنرل ضیاءالحق نے یہ فیصلہ کرنے کیلئے کم ازکم ایک سال لگالیا تھا۔ اُن کا فیصلہ ڈراﺅ دھمکانے سے ، یا عجلت میں ٹیلیفون پر ، یا وزیروں، جرنیلوں سے مشورہ کئے بغیر نہ تھا (جس طرح جنرل پرویز نے کیا) بلکہ ملک کے اندر اور باہر کے حالات و واقعات پر طویل غور و فکر کے بعد کیا گیا فیصلہ تھا۔
ریاست ہائے امریکہ نے پاکستان کو ضرور استعمال کیا کیونکہ ہمار ے تعاون کے بغیر وہ واحد سپر طاقت نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن ہم نے بھی امریکہ کو استعمال کر کے وطن عزیز کی سلامتی ، نیوکلیئرمحاصل، معیشت کو سہارا، افغانستان کو آزاد کرانے کا ، دینی فریضہ ، تقریباًََ ساری دنیا کی پذیرائی اور دنیائے اسلام کا مضبوط قلعہ بننے کا نتیجہ تھا جو ہم نے کم سے کم قربانی دیکر حاصل کیا۔ یہ فیصلہ جنرل ضیاءالحق کا نہ صرف صحیح بلکہ ایک کارنامہ تھا جو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کو یہ کہنا کہ 1980ءکی دہائی میں پاکستان کا افغانستان کی جنگ میں حصہ لینا غلطی تھی اپنی روشن تاریخ پر سیاہی پھیرنے کے مترادف ہے۔ ذرا سوچئے کہ یہ سن کر افغانستان کے باشندے جو پاکستان کی اس وجہ سے پرستش کرتے ہیں کیا کہیں گے۔ افغانستان کی اس جنگ میںکامیابی کی وجہ سے ہم نے درجنوں مشرقی یورپ کے ممالک اور چھ سنٹرل ایشیاءکے ممالک کو آزاد کروایا۔ دیوار برلن گر گئی اورجرمنی متحد ہوگیا۔ کیا اس سب کا کریڈٹ پاکستان کو پھینک دینا چاہئے؟ ہر گز نہیں بلکہ اس جنگ میں حصہ لینے اور کامیابی حاصل کرنے پر پاکستان کو فخر ہے۔ جنگ کے بعد کے حالات ایک الگ موضوع ہے۔جس پر ہمیں ضرور غور و فکر کرنا چاہئے۔ بعد کی حماقتوں کو پہلے کئے گئے درست فیصلوں او ر کامیابیوں کو اپنی تاریخ میں زائل نہیں ہونے دینا چاہئے۔

مزیدخبریں